تشریح:
(1) ہجرت کے موقع پر تشریف آوری کا ذکر ہے۔ آپ مدینہ منورہ کی مضافاتتی بستی قباء میں ٹھہرے تھے۔ آپ چند دن یہاں ٹھہرے رہے، چار یا چودہ دن۔
(2) بنو نجار آپ کا ننھیال تھا۔ ہاشم کی بیوی اور عبدالمطلب کی والدہ اس قبیلے سے تھیں۔ آپ نے ان کی عزت افزائی کرنی چاہی، اس لیے انھیں پیغام بھیجا۔
(3) بکریوں کے باڑے سے مراد وہ جگہ ہے جہاں بکریاں باندھی جاتی ہوں۔
(4) یہ احاطہ آپ کی عا رضی رہائش گاہ کے بالکل سامنے تھا۔ آپ نے اسے مسجد اور اپنی رہائش کے لیے مناسب خیال فرمایا۔
(5) ”مشرکین کی قبریں“ چونکہ مشرکین کی قبریں قابل احترام نہیں ہیں، لہٰذا انھیں اکھیڑا جا سکتا ہے۔ یہ قبریں پرانی تھیں۔ ان کے قریبی ورثاء فوت ہوچکے ہوں گے ورنہ مسلمان ورثاء کی دل شکنی بھی منع ہے۔ روایات میں ہے کہ وہ احاطہ بنونجار کے دو یتیم بچوں کا تھا، اسی لیے آپ نے باوجود پیش کش کے بلاقیمت لینا منظور نہ کیا بلکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہہ کر ان بچوں کو قیمت دلوائی۔
(6) ”رجز“ ایک قسم کا شعر اور ہم آہنگ سا کلام ہوتا ہے۔ اس میں وزن بھی ہوتا ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جنگ میں یا کسی خاص موقع پر اس قسم کا کلام پڑھ لیا تو آپ شاعرنہ بن گئے کیونکہ شاعر وہ ہوتا ہے جو شعر کو بطور پیشہ اور فن اپناتا ہے، نہ کہ وہ جو کبھی کبھار کوئی ہم آہنگ اور باوزن کلام بول لے جس میں شعر کہنے کا کوئی قصد بھی نہ ہو یا کسی کا کہا ہوا شعر پڑھ لے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجه البخارى) .
إسناده: حدثنا محمد بن يحيى بن فارس، ومجاهد بن موسى- وهو أتم- قالا:
ثنا يعقوب بن إبراهيم: ثنا أبي عن صالح قال: نا نافع أن عبد الله بن عمر أخبره.
والرواية الأخرى لمجاهد.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ فإن رجاله كلهم من
رجالهما؛ غير محمد بن يحيى؛ فهو من رجال البخاري وحده.
ومجاهد بن موسى؛ فمن رجال مسلم وحده.
والحديث أخرجه أحمد (2/130) : ثنا يعقوب... به.
ومن طريق أحمد: أخرجه البيهقي (2/438) .
وأخرجه البخاري (1/428) : حدثنا علي بن عبد الله: ثنا يعقوب بن
إبراهيم... به.
(تنبيه) : لم يَعْزُ المنذري في "مختصره " الحديث إلى البخاري! فأوهم أنه لم
يخرجه، وذلك أنّ من عادة المنذري عزوه الحديث إلى من أخرجه من أصحاب
الكتب الستة، فإذا لم يفعل؛ فقد أوهم، فلزم التنبيه عليه!
صحيح أبي داود ( 478 )