تشریح:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ تو فرمایا مگر اس پر عمل اس لیے نہ کیا کہ گھروں کو آگ لگانے سے عورتیں اور بچے بھی بے گھر ہوجائیں گے جن پر مسجد میں حاضری ضروری نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ نماز میں جماعت فرض ہے جیسا کہ امام احمد اور بعض محدثین کا خیال ہے۔ اہل ظاہر نے تو اسے نماز کی صحت کے لیے شرط قرار دیا ہے۔ اگر جماعت فرض نہ ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ رائے ظاہر نہ فرماتے۔ اور بعض دیگر اہل علم نے اسے تشدید پر محمول کیا ہے جیسے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جماعت فرض کفایہ ہے جب کہ دیگر ائمہ و محدثین نے جماعت کو سنت مؤکدہ کہا ہے۔ حدیث کے ظاہر الفاظ تو امام احمد کے مسلک کی تائید کرتے ہیں۔ اگر جماعت فرض کفایہ ہوتی تو پھر ہر شخص کی حاضری ضروری نہ تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار غضب کے کیا معنی ؟ البتہ عذر کی بنا پر جماعت سے غیرحاضری جائز ہے، اس لیے جن بزرگوں نے جماعت کو نماز کی صحت کے لیے شرط قرار دیا ہے، ان کی بات بلادلیل ہے۔ واللہ أعلم۔