تشریح:
(1) فرشتے کا انسانی صورت اختیار کرنا احادیث صحیحہ سے بکثرت ثابت ہے۔ اس میں کوئی عقلی اشکال بھی نہیں۔ روشنی کتنے رنگ اختیار کرتی ہے، کبھی کسی رنگ میں نظر آتی ہے کبھی کسی میں، ویسے روشنی سفید ہے۔ سورج غروب و طلوع کے وقت سرخ نظر آتا ہے اور دوپہر کے وقت سخت سفید، حالانکہ وہ اس وقت کسی اور جگہ طلوع یا غروب ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کائنات کے اسرار و رموز بے شمار ہیں، اس لیے حقیقتاً واضع ہونے والی چیز سے انکار کرنا اہل عقل و خرد کا شیوہ نہیں۔
(2) سردیوں کے موسم میں بھی پسینہ بہہ نکلنا، وحی کے ثقل کی بنا پر تھا کیونکہ وحی کو اخذ کرتے وقت آپ کو بے انتہا جسمانی قوت صرف کرنی پڑتی تھی۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرتے تھے اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی اکتاہٹ وغیرہ کے محسوس کیے بغیر انھیں جواب دیتے اور انھیں دین کی باتیں سکھاتے تھے، پھر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے جو کچھ آپ سے سیکھا اور یاد کیا اسے کوئی بات چھپائے بغیر ہم تک پہنچایا۔ واللہ الحمد علی ذلك۔
(۴) اطمینان قلب کے لیے دین کی کسی چیز کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا یقین کے منافی نہیں۔