Sunan-nasai:
Description Of Wudu'
(Chapter: Women Wiping Their Head)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
100.
حضرت ابو عبداللہ سالم سبلان حضرت عائشہ ؓا سے روایت کرتے ہیں، اور حضرت عائشہ ؓ ان کی امانت داری سے بہت خوش تھیں اور ان سے اجرت پر کام کروایا کرتی تھیں، وہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ ؓ نے دکھلایا کہ اللہ کے رسول ﷺ کیسے وضو فرمایا کرتے تھے۔ انھوں نے تین دفعہ کلی کی اور ناک جھاڑا اور اپنا چہرہ تین دفعہ دھویا، پھر اپنا دایاں اور بایاں ہاتھ (بازو) تین تین دفعہ دھویا، پھر حضرت عائشہ نے اپنا ہاتھ سر کے اگلے حصہ پر رکھا اور پیچھے تک پورے سر کا ایک دفعہ مسح کیا، پھر انھوں نے اپنے ہاتھ اپنے کانوں پر پھیرے، پھر رخساروں پر پھیرے۔ سالم نے کہا: میں جب مکاتب تھا تو آپ کے پاس آیا کرتا تھا، وہ مجھ سے پردہ نہیں کرتی تھیں بلکہ میرے سامنے بیٹھ کر مجھ سے باتیں کیا کرتی تھیں حتیٰ کہ میں ایک دن ان کے پاس آیا اور میں نے کہا: اے ام المومنین! میرے لیے برکت کی دعا فرمائیے۔ وہ کہنے لگیں: کیا بات ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے آزاد فرما دیا ہے۔ وہ کہنے لگیں: اللہ تعالیٰ تمھارے لیے برکت فرمائے۔ اس کے بعد پردہ لٹکا لیا اور اس دن کے بعد میں نے انھیں نہیں دیکھا۔
تشریح:
(1) راوی کا نام سالم، سبلان ان کا لقب اور ابو عبداللہ ان کی کنیت ہے۔ یہ غلام تھے، بعد میں آزاد ہوئے۔ (2) (مکاتب) اس غلام کو کہا جاتا ہے جو اپنا معاوضہ ادا کرنے کا معاہدہ اپنے مالک سے کرلے۔ ایسا غلام جب تک معاوضہ ادا نہ کر دے، وہ اس مالک کا غلام ہی رہتا ہے۔ چونکہ غلاموں سے پردہ ضروری نہیں، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سالم سے بے حجاب بات کرنا قابل اعتراض نہیں (اسی طرح لونڈیوں پر بھی پردہ واجب نہیں) جونہی سالم آزاد ہوا، آپ نے ان سے فوراً پردہ کرلیا۔ (3) مذکورہ روایت قابل حجت ہے اگرچہ عمومی روایات میں مسح کا یہ طریقہ منقول نہیں، لیکن چونکہ یہ طریقہ بھی مستند ذریعے سے ثابت ہے، اس لیے انسان کبھی کبھار اس سنت مسح کو بھی اختیار کرسکتا ہے۔ (3) امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے یوں لگتا ہے کہ وہ اس اندازِ مسح کو صرف عورت کےساتھ خاص سمجھتے ہیں لیکن سائل کے سوال اور اس کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وضو کرکے دکھانا اور پھر اس مسح کے طریقے کی نسبت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ طریقہ مرد و عورت سب کے لیے یکساں قابل عمل ہے۔ عورت کی تخصیص مرجوح ہے۔ واللہ أعلم۔
حضرت ابو عبداللہ سالم سبلان حضرت عائشہ ؓا سے روایت کرتے ہیں، اور حضرت عائشہ ؓ ان کی امانت داری سے بہت خوش تھیں اور ان سے اجرت پر کام کروایا کرتی تھیں، وہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ ؓ نے دکھلایا کہ اللہ کے رسول ﷺ کیسے وضو فرمایا کرتے تھے۔ انھوں نے تین دفعہ کلی کی اور ناک جھاڑا اور اپنا چہرہ تین دفعہ دھویا، پھر اپنا دایاں اور بایاں ہاتھ (بازو) تین تین دفعہ دھویا، پھر حضرت عائشہ نے اپنا ہاتھ سر کے اگلے حصہ پر رکھا اور پیچھے تک پورے سر کا ایک دفعہ مسح کیا، پھر انھوں نے اپنے ہاتھ اپنے کانوں پر پھیرے، پھر رخساروں پر پھیرے۔ سالم نے کہا: میں جب مکاتب تھا تو آپ کے پاس آیا کرتا تھا، وہ مجھ سے پردہ نہیں کرتی تھیں بلکہ میرے سامنے بیٹھ کر مجھ سے باتیں کیا کرتی تھیں حتیٰ کہ میں ایک دن ان کے پاس آیا اور میں نے کہا: اے ام المومنین! میرے لیے برکت کی دعا فرمائیے۔ وہ کہنے لگیں: کیا بات ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے آزاد فرما دیا ہے۔ وہ کہنے لگیں: اللہ تعالیٰ تمھارے لیے برکت فرمائے۔ اس کے بعد پردہ لٹکا لیا اور اس دن کے بعد میں نے انھیں نہیں دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) راوی کا نام سالم، سبلان ان کا لقب اور ابو عبداللہ ان کی کنیت ہے۔ یہ غلام تھے، بعد میں آزاد ہوئے۔ (2) (مکاتب) اس غلام کو کہا جاتا ہے جو اپنا معاوضہ ادا کرنے کا معاہدہ اپنے مالک سے کرلے۔ ایسا غلام جب تک معاوضہ ادا نہ کر دے، وہ اس مالک کا غلام ہی رہتا ہے۔ چونکہ غلاموں سے پردہ ضروری نہیں، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سالم سے بے حجاب بات کرنا قابل اعتراض نہیں (اسی طرح لونڈیوں پر بھی پردہ واجب نہیں) جونہی سالم آزاد ہوا، آپ نے ان سے فوراً پردہ کرلیا۔ (3) مذکورہ روایت قابل حجت ہے اگرچہ عمومی روایات میں مسح کا یہ طریقہ منقول نہیں، لیکن چونکہ یہ طریقہ بھی مستند ذریعے سے ثابت ہے، اس لیے انسان کبھی کبھار اس سنت مسح کو بھی اختیار کرسکتا ہے۔ (3) امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے یوں لگتا ہے کہ وہ اس اندازِ مسح کو صرف عورت کےساتھ خاص سمجھتے ہیں لیکن سائل کے سوال اور اس کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وضو کرکے دکھانا اور پھر اس مسح کے طریقے کی نسبت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ طریقہ مرد و عورت سب کے لیے یکساں قابل عمل ہے۔ عورت کی تخصیص مرجوح ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوعبداللہ سالم سبلان کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ ؓ ان کی امانت پر تعجب کرتی تھیں، اور ان سے اجرت پر کام لیتی تھیں، چنانچہ آپ ؓ نے مجھے دکھایا کہ رسول اللہ ﷺ کیسے وضو کرتے تھے؟ چنانچہ آپ ؓ نے تین بار کلی کی،اور ناک جھاڑی اور تین بار اپنا چہرہ دھویا، پھرتین باراپنا دایاں ہاتھ دھویا،اور تین باربایاں،پھر اپنا ہاتھ اپنے سر کے اگلے حصہ پر رکھا،اور اپنے سر کا اس کے پچھلے حصہ تک ایک بار مسح کیا،پھراپنےدونوں ہاتھوں کواپنےدونوں کانوں پرپھیرا،پھردونوں رخساروں پر پھیرا،سالم کہتے ہیں: میں بطور مکاتب (غلام) کے ان کے پاس آتا تھا اور آپ مجھ سے پردہ نہیں کرتی تھیں،میرےسامنےبیٹھتیں اورمجھ سے گفتگوکرتی تھیں، یہاں تک کہ ایک دن میں ان کے پاس آیا، اور ان سے کہا: ام المؤمنین! میرے لیے برکت کی دعا کر دیجئیے، وہ بولیں: کیا بات ہے؟ میں نے کہا: اللہ نے مجھے آزادی دے دی ہے،انہوں نے کہا:اللہ تعالیٰ تمہیں برکت سے نوازے،اور پھر آپ نے میرے سامنے پردہ لٹکا دیا،اس دن کے بعد سے میں نے انہیں نہیں دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu ‘Abdullah Salim Sabalan said: 'Aishah (RA) liked my honesty and hired me, and she showed me how the Messenger of Allah (ﷺ) used to perform Wudu She rinsed her mouth, sniffed water into her nose and blew it out three times, and washed her face three times. Then she washed her right hand three times and her left hand three times. Then she put her hand on the front of her head and wiped her head once, front to back. Then she rubbed her ears with her hands, then she passed her hands over her cheeks.” Salim said: “I came to her as a slave with a contract of manumission, and she did not hide herself from me. She would sit before me and talk to me, until I came to her one day and said: ‘Pray for blessing for me, Mother of the Believers.’ She said: ‘Why is that?’ I said: ‘Allah has set me free.’ She said: ‘May Allah bless you.’ Then she lowered the Hijab before me, and I never saw her again after that day.” (Hasan)