تشریح:
(1) اشعار ویسے تو ٹھہر ٹھہر کر پڑھے جاتے ہیں مگر جب حفظ شدہ اشعار کا دور کیا جاتا ہے تو انھیں تیز تیز پڑھا جاتا ہے، جس طرح بعض قراء حضرات قرآن مجید کا دور کرتے وقت بہت تیز پڑھتے ہیں کہ غیر حافظ سمجھ ہی نہیں سکتا۔ یہ مفہوم ہے۔
(2) اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر اور تدبر کرتے ہوئے پڑھنا چاہیے، اتنا تیز تیز نہیں پڑھنا چاہیے کہ کسی کی سمجھ ہی میں نہ آئے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه ابن جان وابن خزيمة) .
إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: نا ابن وهب: أخبرنا عمرو أن أبا سَوِية
حدثه أنه سمع ابن حُجَيْرَةَ يخبر عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: قال رسول
الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... فذكره.
قال أبو داود: " ابن حجيرة الأصغر: عبد- الله بن عبد الرحمن بن حجيرة ".
قلت: وهذا إسناد جيد، رجاله كلهم ثقات رجال "الصحيح "؛ غير أبي سوية
- واسمه عُبَيْدُ بن سَوِيَّةَ-، وهو صدوق، كما اعتمدته فما "سلسلة الأحاديث
الصحيحة" (642) ، وذكرت هاك من أخرجه غير أبي داود، مع شاهد له من
حديث ابن عمر، وآخر من حديث أبي هريرة.