Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: Reciting two surahs in one rak'ah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1005.
حضرت ابووائل بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس کہا کہ میں نے تمام مفصل سورتیں آج رات ایک رکعت میں پڑھ لیں۔ آپ نے فرمایا: شعر کی طرح تیز تیز کتر ڈالیں۔ اللہ عزوجل کی قسم! میں ان ملتی جلتی سورتوں کو بخوبی پہچانتا ہوں جنھیں اللہ کے رسول ﷺ ملا کر پڑھا کرتے تھے۔ پھر انھوں نے مفصل سورتوں میں سے بیس سورتیں ذکر کیں۔ ہر رکعت میں دو دو سورتیں۔
تشریح:
(1) اشعار ویسے تو ٹھہر ٹھہر کر پڑھے جاتے ہیں مگر جب حفظ شدہ اشعار کا دور کیا جاتا ہے تو انھیں تیز تیز پڑھا جاتا ہے، جس طرح بعض قراء حضرات قرآن مجید کا دور کرتے وقت بہت تیز پڑھتے ہیں کہ غیر حافظ سمجھ ہی نہیں سکتا۔ یہ مفہوم ہے۔ (2) اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر اور تدبر کرتے ہوئے پڑھنا چاہیے، اتنا تیز تیز نہیں پڑھنا چاہیے کہ کسی کی سمجھ ہی میں نہ آئے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه ابن جان وابن خزيمة) .
إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: نا ابن وهب: أخبرنا عمرو أن أبا سَوِية
حدثه أنه سمع ابن حُجَيْرَةَ يخبر عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: قال رسول
الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... فذكره.
قال أبو داود: " ابن حجيرة الأصغر: عبد- الله بن عبد الرحمن بن حجيرة ".
قلت: وهذا إسناد جيد، رجاله كلهم ثقات رجال "الصحيح "؛ غير أبي سوية
- واسمه عُبَيْدُ بن سَوِيَّةَ-، وهو صدوق، كما اعتمدته فما "سلسلة الأحاديث
الصحيحة" (642) ، وذكرت هاك من أخرجه غير أبي داود، مع شاهد له من
حديث ابن عمر، وآخر من حديث أبي هريرة.
حضرت ابووائل بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس کہا کہ میں نے تمام مفصل سورتیں آج رات ایک رکعت میں پڑھ لیں۔ آپ نے فرمایا: شعر کی طرح تیز تیز کتر ڈالیں۔ اللہ عزوجل کی قسم! میں ان ملتی جلتی سورتوں کو بخوبی پہچانتا ہوں جنھیں اللہ کے رسول ﷺ ملا کر پڑھا کرتے تھے۔ پھر انھوں نے مفصل سورتوں میں سے بیس سورتیں ذکر کیں۔ ہر رکعت میں دو دو سورتیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اشعار ویسے تو ٹھہر ٹھہر کر پڑھے جاتے ہیں مگر جب حفظ شدہ اشعار کا دور کیا جاتا ہے تو انھیں تیز تیز پڑھا جاتا ہے، جس طرح بعض قراء حضرات قرآن مجید کا دور کرتے وقت بہت تیز پڑھتے ہیں کہ غیر حافظ سمجھ ہی نہیں سکتا۔ یہ مفہوم ہے۔ (2) اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر اور تدبر کرتے ہوئے پڑھنا چاہیے، اتنا تیز تیز نہیں پڑھنا چاہیے کہ کسی کی سمجھ ہی میں نہ آئے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابووائل شفیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آ کر کہنے لگا: میں نے پوری مفصل ایک ہی رکعت میں پڑھ لی، تو انہوں نے کہا: یہ تو شعر کی طرح جلدی جلدی پڑھنا ہوا، مجھے وہ سورتیں معلوم ہیں جو ایک دوسرے کے مشابہ ہیں، اور جنہیں رسول اللہ ﷺ ملا کر پڑھا کرتے تھے، تو انہوں نے مفصل کی بیس سورتوں کا ذکر کیا جن میں آپ دو دو سورتیں ایک رکعت میں ملا کر پڑھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Amr bin Murrah said: "I heard Abu Wa'il say: "A man said in the presence of Abdullah: 'I recited Al-Mufassal in one rak'ah'. He said: 'That is like reciting poetry. I know the similar surahs that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) used to recite together.' And he mentioned twenty surahs from Al-Mufassal, two by two in each rak'ah".