Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: Not doing that)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1025.
حضرت علقمہ سے روایت ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں نہ بتاؤں؟ پھر آپ اٹھے (نماز شروع کی) پہلی دفعہ رفع الیدین کیا، پھر نہ کیا۔
تشریح:
یہ روایت رکوع کے رفع الیدین کے نسخ کی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے، مگر یہاں چند باتیں قابل غور ہیں: (1) اس روایت میں رکوع کے رفع الیدین کا ذکر ہی نہیں تو مسنوخ کیسے؟ اگر کہا جائے: ”پھر نہ کیا“ سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے تو عرض ہے کہ قنوت وتر کا رفع الیدین اس سے کیسے بچ گیا؟ تکبیرات عیدین کیوں اس کی زد میں نہ آئیں؟ (2) اس روایت کی اسنادی حیثیت اتنی قوی نہیں جتنی رفع الیدین کے ثبوت کی احادیث کی ہے۔ اس حدیث کو اکثر محدثین نے ضعیف کہا ہے جب کہ رفع الیدین کرنے کی بخاری اور مسلم کی مستند روایات ہیں۔ پھر وہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔ کیا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک ضعیف روایت لے کر کثیر صحابہ کی روایات چھوڑنا کسی بھی لحاظ سے مناسب ہے؟ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۵۲-۵۰/۱۳) (3) کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے رفع الیدین کرنے کا ثبوت ملتا ہے جبکہ ان سے اس کی نفی منقول ہے۔ کس کو ترجیح ہونی چاہیے؟ یقیناً اصولی طور پر اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے۔ یا ممکن ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں جس طرح وہ چند باتیں اور بھول گئے تھے، مثلاً: معوذتین قرآن کا جز ہیں یا نہیں؟ اور امام کے ساتھ دو مقتدی ہوں تو کیسے کھڑے ہوں؟ رکوع کے دوران میں ہاتھ کہاں اور کیسے رکھے جائیں؟ اور مسائل میں احناف بھی ان کی بات نہیں مانتے۔ تو کیا مناسب نہیں کہ رفع الیدین کو بھی ان مسائل میں شامل کر لیا جائے کیونکہ ان کا موقف کثیر صحابہ کے موافق نہیں۔ (4) اس حدیث کی مناسب تاویل بھی ہوسکتی ہے، مثلاً: پہلی رکعت کے شروع میں رفع الیدین کیا۔ دوسری رکعت کے شروع میں نہیں کیا۔ عید کی طرح بار بار نہیں کیا وغیرہ، تاکہ یہ روایت اصح اور کثیر روایات کے مطابق ہوسکے۔ (5) اگر بالفرض اس حدیث کو صحیح بھی مانا جائے، تاویل بھی نہ کی جائے اور عمل بھی کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ کبھی کبھار رفع الیدین نہ بھی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ معمول رفع الیدین ہی کا ہوتا کہ سب حدثیوں پر عمل ہو۔ اس روایت سے نسخ تو قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔ مندرجہ بالا معقول باتوں کو چھوڑ کر نسخ ہی باور کرانے پر تلے رہنا، جب کہ مولانا انور شاہ کشمیری نے بھی نسخ کی تردید کی ہے، یقیناً انتہائی نامعقولیت ہے جس کا کوئی جواز نہیں کیا جا سکتا۔
حضرت علقمہ سے روایت ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں نہ بتاؤں؟ پھر آپ اٹھے (نماز شروع کی) پہلی دفعہ رفع الیدین کیا، پھر نہ کیا۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت رکوع کے رفع الیدین کے نسخ کی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے، مگر یہاں چند باتیں قابل غور ہیں: (1) اس روایت میں رکوع کے رفع الیدین کا ذکر ہی نہیں تو مسنوخ کیسے؟ اگر کہا جائے: ”پھر نہ کیا“ سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے تو عرض ہے کہ قنوت وتر کا رفع الیدین اس سے کیسے بچ گیا؟ تکبیرات عیدین کیوں اس کی زد میں نہ آئیں؟ (2) اس روایت کی اسنادی حیثیت اتنی قوی نہیں جتنی رفع الیدین کے ثبوت کی احادیث کی ہے۔ اس حدیث کو اکثر محدثین نے ضعیف کہا ہے جب کہ رفع الیدین کرنے کی بخاری اور مسلم کی مستند روایات ہیں۔ پھر وہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔ کیا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک ضعیف روایت لے کر کثیر صحابہ کی روایات چھوڑنا کسی بھی لحاظ سے مناسب ہے؟ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۵۲-۵۰/۱۳) (3) کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے رفع الیدین کرنے کا ثبوت ملتا ہے جبکہ ان سے اس کی نفی منقول ہے۔ کس کو ترجیح ہونی چاہیے؟ یقیناً اصولی طور پر اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے۔ یا ممکن ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں جس طرح وہ چند باتیں اور بھول گئے تھے، مثلاً: معوذتین قرآن کا جز ہیں یا نہیں؟ اور امام کے ساتھ دو مقتدی ہوں تو کیسے کھڑے ہوں؟ رکوع کے دوران میں ہاتھ کہاں اور کیسے رکھے جائیں؟ اور مسائل میں احناف بھی ان کی بات نہیں مانتے۔ تو کیا مناسب نہیں کہ رفع الیدین کو بھی ان مسائل میں شامل کر لیا جائے کیونکہ ان کا موقف کثیر صحابہ کے موافق نہیں۔ (4) اس حدیث کی مناسب تاویل بھی ہوسکتی ہے، مثلاً: پہلی رکعت کے شروع میں رفع الیدین کیا۔ دوسری رکعت کے شروع میں نہیں کیا۔ عید کی طرح بار بار نہیں کیا وغیرہ، تاکہ یہ روایت اصح اور کثیر روایات کے مطابق ہوسکے۔ (5) اگر بالفرض اس حدیث کو صحیح بھی مانا جائے، تاویل بھی نہ کی جائے اور عمل بھی کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ کبھی کبھار رفع الیدین نہ بھی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ معمول رفع الیدین ہی کا ہوتا کہ سب حدثیوں پر عمل ہو۔ اس روایت سے نسخ تو قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔ مندرجہ بالا معقول باتوں کو چھوڑ کر نسخ ہی باور کرانے پر تلے رہنا، جب کہ مولانا انور شاہ کشمیری نے بھی نسخ کی تردید کی ہے، یقیناً انتہائی نامعقولیت ہے جس کا کوئی جواز نہیں کیا جا سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ بتاؤں؟ چنانچہ وہ کھڑے ہوئے اور پہلی بار اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر انہوں نے دوبارہ ایسا نہیں کیا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ ایسا ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین نہ کرتے رہے ہوں، کیونکہ یہ فرض و واجب تو ہے نہیں، اس لیے ممکن ہے بیان جواز کے لیے کبھی آپ نے رفع الیدین نہ کیا ہو، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسی حالت میں آپ کو دیکھا ہو، ویسے ان سے تو کچھ ایسی باتیں بھی منقول ہیں کہ جن کا کوئی بھی امام قائل نہیں ہے، جیسے رکوع میں تطبیق (دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ملا کر دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھنا) اور معوّذتین کا ان کے مصحف (قرآن) میں نہ ہونا، وغیرہ، تو ممکن ہے ان کی یہ روایت بھی انہی باتوں میں سے ہو، رفع یدین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مستمرہ و راتبہ میں سے نہ ہوتا تو آپ کی وفات کے بعد بیسیوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رفع یدین نہ کرتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Alqamah, that Abdullah said: "Shall I not tell you about the prayer of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم)? He stood and raised his hands the first time and then he did not do that again".