Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: Being moderate in bowing)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1028.
حضرت انس ؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”رکوع اور سجدے میں اعتدال رکھو۔ تم میں سے کوئی آدمی کتے کی طرح اپنے بازو نہ پھیلائے۔“
تشریح:
(1) افراط و تفریط کسی کام میں بھی اچھی نہیں بلکہ اعتدال اور میانہ روی ہی درست ہے۔ نماز میں بھی اعتدال ضروری ہے۔ رکوع میں اعتدال یہ ہے کہ سرکو پشت سے اونچا کرے، نہ نیچا۔ بازوؤں اور ٹانگوں کو بالکل سیدھا کس کر رکھے۔ ہاتھوں کو گھٹنوں پر پکڑنے کے انداز میں رکھے اور سجدے میں اعتدال یہ ہے کہ کھلا سجدہ کرے۔ بازوؤں کو نہ تو بالکل سکیڑ کر پہلوؤں سے لگائے اور نہ زمین پر رکھے اور نہ رانوں پر۔ پیٹ کو بھی رانوں سے اٹھا کر رکھے۔ بازو مناسب حد تک باہر کو نکلے ہوئے ہوں۔ اگر صف کے اندر ہو تو گنجائش کے مطابق ہی بازو کھولے تاکہ ساتھیوں کو تکلیف نہ ہو۔ ہتھیلیوں کو سیدھا قبلہ رخ زمین پر رکھے۔ (2) کتے کی طرح بازو پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ ہتھیلیوں کے ساتھ ساتھ کہنیوں کو بھی زمین پر رکھ دے۔ یہ منع ہے۔ نماز کے دوران میں کسی بھی جانور کی مشابہت بہت بری بات ہے، مثلاً: اونٹ کی طرح سجدے کو جانا یا اٹھنا۔ دو سجدوں کے درمیان کتے کی طرح بیٹھنا کہ پاؤں مقعد اور ہاتھ زمین پر رکھے ہوں اور گھٹنے کھڑے ہوں، یہ سب ممنوع ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم . وله طريق أخرى من رواية أبي الزبير عنه . أخرجه أحمد ( 3 / 336 ) وسنده حسن في المتابعات . وله شاهد آخر من حديث ابن عمر بلفظ : " لا تبسط ذراعيك إذا صليت كبسط السبع وادعم على راحتيك وتجاف عن ضبعيك فإنك إذا فعلت ذلك سجد لك كل عضو منك " . أخرجه ابن عدي في ( الكامل ) ( ق 284 / 1 ) والحاكم ( 1 / 277 ) من طريق ابن إسحاق قال : حدثني مسعر بن كدام عن آدم بن علي البكري عنه مرفوعا . وقال : " صحيح " . ووافقه الذهبي . قلت : وإنما هو حسن فقط لما تقدم من حال ابن إسحاق وقد أخرجه الطبراني في ( الكبير ) : ورجاله ثقات كما في ( المجمع ) ( 2 / 126 ) وقال . الحافظ في ( الفتح ) ( 2 / 244 ) " إسناده صحيح " . فلعله عند الطبراني من غير طريق ابن إسحاق فيراجع
حضرت انس ؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”رکوع اور سجدے میں اعتدال رکھو۔ تم میں سے کوئی آدمی کتے کی طرح اپنے بازو نہ پھیلائے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) افراط و تفریط کسی کام میں بھی اچھی نہیں بلکہ اعتدال اور میانہ روی ہی درست ہے۔ نماز میں بھی اعتدال ضروری ہے۔ رکوع میں اعتدال یہ ہے کہ سرکو پشت سے اونچا کرے، نہ نیچا۔ بازوؤں اور ٹانگوں کو بالکل سیدھا کس کر رکھے۔ ہاتھوں کو گھٹنوں پر پکڑنے کے انداز میں رکھے اور سجدے میں اعتدال یہ ہے کہ کھلا سجدہ کرے۔ بازوؤں کو نہ تو بالکل سکیڑ کر پہلوؤں سے لگائے اور نہ زمین پر رکھے اور نہ رانوں پر۔ پیٹ کو بھی رانوں سے اٹھا کر رکھے۔ بازو مناسب حد تک باہر کو نکلے ہوئے ہوں۔ اگر صف کے اندر ہو تو گنجائش کے مطابق ہی بازو کھولے تاکہ ساتھیوں کو تکلیف نہ ہو۔ ہتھیلیوں کو سیدھا قبلہ رخ زمین پر رکھے۔ (2) کتے کی طرح بازو پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ ہتھیلیوں کے ساتھ ساتھ کہنیوں کو بھی زمین پر رکھ دے۔ یہ منع ہے۔ نماز کے دوران میں کسی بھی جانور کی مشابہت بہت بری بات ہے، مثلاً: اونٹ کی طرح سجدے کو جانا یا اٹھنا۔ دو سجدوں کے درمیان کتے کی طرح بیٹھنا کہ پاؤں مقعد اور ہاتھ زمین پر رکھے ہوں اور گھٹنے کھڑے ہوں، یہ سب ممنوع ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”رکوع اور سجدے میں سیدھے رہو۱؎ اور تم میں سے کوئی بھی اپنے دونوں بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: رکوع میں (اعتدال) سیدھا رہنے کا مطلب یہ ہے کہ پیٹھ کو سیدھا رکھے، اور سر کو اس کے برابر رکھے، نہ اوپر نہ نیچے، اور دونوں ہاتھ سیدھے کر کے گھٹنوں پر رکھے، اور سجدہ میں اعتدال یہ ہے کہ کہنیوں کو زمین سے اور پیٹ کو ران سے جدا رکھے، کتے کی طرح بازو بچھانے کا مطلب دونوں کہنیوں کو دونوں ہتھیلیوں کے ساتھ زمین پر رکھنا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Anas that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Be moderate in bowing and prostration, and do not rest your forearms along the ground like a dog".