Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: Clasping one's hands together)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1029.
حضرت علقمہ اور اسود سے مروی ہے کہ ہم دونوں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے گھر میں ان کے ساتھ تھے تو انھوں نے فرمایا: کیا یہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔ تو انھوں نے ہم دونوں کو بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی اور ہمارے درمیان کھڑے ہوگئے اور فرمایا: جب تم تین آدمی ہو تو اسی طرح کیا کرو اور جب تم تین سے زیادہ ہو تو پھر تم میں سے ایک (امام آگے کھڑا ہو کر) جماعت کرائے اور (رکوع میں) اپنے بازو رانوں پر بچھا کر (دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں پھنسا کر گھٹنوں کے درمیان) رکھ لے۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کو ایک دوسری میں پھنسی ہوئی دیکھ رہا ہوں۔
تشریح:
(1) ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسا کر ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان رکھنا تطبیق کہلاتا ہے۔ بحث آگے آ رہی ہے۔ (2) رکوع کے بیان میں یہ روایت بہت مختصر ہے۔ صحیح مسلم میں یہ روایت تفصیل سے آئی ہے۔ ترجمے میں اس روایت کو سامنے رکھا گیا ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۵۳۴) (3) دو مقتدیوں کی صورت میں امام کیسے کھڑا ہو، یہ مسئلہ پیچھے کتاب الإمامۃ کے ابتدائیے میں گزر چکا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرح المرفوع منه: مسلم وأبو عوانة في
"صحيحيهما"
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا محمد بن فُضَيْل عن هارون بن
عنترة عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبيه قال...
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير هارون بن
عنترة؛ وهو ثقة.
وتناقض فيه ابن حبان! واختلف النقل عن الدارقطني؛ ففي "التهذيب ":
" وقال البرقاني: سألت الدارقطني عن عبد الملك بن هارون بن عنترة؟ فقال:
متروك يكذب، وأبوه يحتج به، وجلّه يعتبر به "!
وكذا في "الميزان " في ترجمة هارون هذا. وأما في ترجمة ابنه عبد الملك؛
فقال: إنه " يروي عن أبيه. قال الدارقطني: هما ضعيفان ".
وأقره في "اللسان ".
وأما ما نقله الزيلعي (2/33) عن النووي أنه قال:
" فيه هارون بن عنترة، وهو وإن وثقه أحمد وابن معين؛ فقد قال الدارقطني:
هو متروك كان يكذب "!
فإنه نقل خطأ عن الدارقطني؛ فإنما قال هذا في (عبد الملك) ابن المترجم، كما
نقلناه آنفاً من الكتب الموثوقة! والله أعلم. وقال المنذري في "مختصره" :
" وفي إسناده هارون بن عنترة، وقد تكلم فيه بعضهم. وقال أبو عمر النمَري:
وهذا الحديث لا يصح رفعه، والصحيح فيه عندهم التوقيف على ابن مسعود: أنه
كذلك صلى بعلقمة والأسود. وهذا الذي أشار إليه أبو عمر؛ قد أخرجه مسلم في
"صحيحه "، وهو موقوف ".
قلت: قد أخرجه مسلم مرفوعاً أيضا كما سنبينه.
وهارون بن عنترة؛ لم يتكلم فيه غير الدارقطني وابن حبان؛ مع أنهما وثقاه
أيضا؛ فالأخذ بتوثيقهما إياه أولى؛ لأمرين:
الأول: أنه جرح غير مفسر.
والأخر: أنه موافق لحكم الأئمة الأخرين عليه بالثقة.
ثم إنه لم يمرد به؛ بل قد تابعه محمد بن إسحاق عن عبد الرحمن بن
الأسود، ومنصور عن إبراهيم عن علقمة والأسود، كما يأتي.
والحديث أخرجه أحمد (رقم 4030) : حدثنا ابن فضيل... به.
وأخرجه النسائي (1/128- 129) من طريق أخرى عن ابن فضيل... به؛
لكن لم يقل: عن أبيه! فصار ظاهره الانقطاع!
وليس كذلك؛ بل هو متصل؛ بدليل رواية المصنف والنسائي؛ وفيه عنده زيادة
في أوله.
وأخرجه الطحاوي (1/181) ، والبيهقي (3/98) ، وأحمد (رقم 4311) من
طريق محمد بن إسحاق عن عبد الرحمن بن الأسود.
فهذه متابعة قوية لهارون بن عنترة.
وقد أعله النووي- كما في "نصب الراية" (2/34) - بقوله:
" وابن إسحاق مشهور بالتدليس، وقد عنعن، والمدلس إذا عنعن لا يحتج به
بالاتفاق "!
قلت: قد صرح بسماعه في رواية لأحمد (رقم 4386) : حدثنا يعقوب:
حدثنا أبي عن ابن إسحاق قال: وحدثني عبد الرحمن بن الأسي بن يزيد
النخعي قال:
دخلت أنا وعمي علقمة على عبد الله بن مسعود بالهاجرة، قال: فأقام الظهر
ليصلي، فقمنا خلفه، فأخذ بيدي ويد عمي، ثم جعل أحدنا عن يمينه والأخر عن
يساره، ثم قام بيننا، فصففنا خلفه صفاً واحدأ، قال: ثم قال: هكذا كان رسول
الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يصنع إذا كانوا ثلاثة... الحديث.
فزالت شيهة التدليس، وعاد الحديث صحيحاً لا شبهة فيه.
وتابعه أيضا أبو إسحاق عن ابن الأسود عن علقمة والأسود:
أنهما كانا مع ابن مسعود، فحضرت الصلاة، فتأً خر علقمة والأسود، فأخذ
ابن مسعود بأيديهما، فأقام أحدهما عن يمينه والآخر عن يساره، ثم ركعا، فوضعا
أيديهما على ركبهما وضرب أيديهما، ثم طبَّق بين يديه وشبك، وجعلهما بين
فخذيه، وقال: رأيت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فعله.
أخرجه أحمد (رقم 3927 و 3928) من طريق إسرائيل عنه.
وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وإسرائيل: هو ابن يونس بن أبي
إسحاق السبيعي؛ وأبو إسحاق هو جده.
ولإسرائيل فيه إسناد آخر:
رواه مسلم (2/69) ، وأبو عوانة (2/166) من طريق عبيد الله بن موسى عنه
عن منصور عن إبراهيم عن علقمة والأسود... به مثل حديثه عن جده؛ إلا أنه
قال في آخره:
فلما صلى قال: هكذا فعل رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فهذا صريح- أو كالصريح- في أن كلاً من الميامنة والمياسرة، والتطبيق: مرفوع
إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ولا يعكر على هذا: أن الأعمش رواه عن إبراهيم ولم يصرح برفع الأمر الأول
منهما؛ لما عرف أن زيادة الثقة مقبولة؛ لا سيما إذا جاءت من طريق أخرى، كما
في حديث الباب.
وحديث الأعمش سيأتي بعضه في الكتاب (رقم 814) .
وبالجملة؛ فالحديث صحيح مرفوع إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وإن من أعله بالوقف
مخطئ؛ لأنه لم يتتبع طرقه، ولم يتوسع في تخريجه!
حضرت علقمہ اور اسود سے مروی ہے کہ ہم دونوں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے گھر میں ان کے ساتھ تھے تو انھوں نے فرمایا: کیا یہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔ تو انھوں نے ہم دونوں کو بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی اور ہمارے درمیان کھڑے ہوگئے اور فرمایا: جب تم تین آدمی ہو تو اسی طرح کیا کرو اور جب تم تین سے زیادہ ہو تو پھر تم میں سے ایک (امام آگے کھڑا ہو کر) جماعت کرائے اور (رکوع میں) اپنے بازو رانوں پر بچھا کر (دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں پھنسا کر گھٹنوں کے درمیان) رکھ لے۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کو ایک دوسری میں پھنسی ہوئی دیکھ رہا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسا کر ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان رکھنا تطبیق کہلاتا ہے۔ بحث آگے آ رہی ہے۔ (2) رکوع کے بیان میں یہ روایت بہت مختصر ہے۔ صحیح مسلم میں یہ روایت تفصیل سے آئی ہے۔ ترجمے میں اس روایت کو سامنے رکھا گیا ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۵۳۴) (3) دو مقتدیوں کی صورت میں امام کیسے کھڑا ہو، یہ مسئلہ پیچھے کتاب الإمامۃ کے ابتدائیے میں گزر چکا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علقمہ اور اسود سے روایت ہے کہ وہ دونوں عبداللہ بن مسعود ؓ کے ساتھ ان کے گھر میں تھے، تو انہوں نے پوچھا: کیا ان لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے کہا: ہاں! تو انہوں نے بغیر اذان و اقامت کے دونوں کی امامت کی، اور ان دونوں کے درمیان میں کھڑے ہوئے، اور کہنے لگے: جب تم تین ہو تو ایسے ہی کرو، اور جب تم اس سے زیادہ ہو تو تم میں ایک شخص تمہاری امامت کرے، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنی دونوں رانوں پر بچھا لے، گویا میں رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست دیکھ رہا ہوں۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہاں اختصار ہے، صحیح مسلم کی روایت میں ہے «واذا کنتم أکثر من ذلك، فلیؤمکم أحدکم، وذا رَكعَ أحدُكم فليفرِشْ ذراعيْهِ على فخِذيْهِ وليطبِّق بينَ كفَّيْهِ فَكأنِّي أنظرُ إلى اختلافِ أصابعِ رسولِ اللَّهِ ﷺ» ”یعنی جب تم تین سے زائد ہو تو تم میں سے ایک آگے بڑھ کر امامت کرے، اور جب رکوع کرے تو اپنے دونوں بازو اپنی دونوں رانوں پر بچھا لے، اور رکوع میں جائے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کرے، اور انہیں اپنے دونوں گھٹنوں کے بیچ میں رکھ لے، گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست دیکھ رہا ہوں، اس کو تطبیق کہتے ہیں اور یہ منسوخ ہے، دیکھئیے رقم: ۱۰۳۳۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Alqamah and Al-Aswad that: They were with 'Abdullah in his house and he said: "Have these people prayed"? We said: "Yes". So he led them in prayer and stood between them, with no Adhan and no Iqamah, and said: "If you are three then do this, and if you are more than that then let one of you lead the others in prayer, and let him lay his hands on his thighs. It is as if I can see the fingers of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم), interlaced'".