باب: کانوں کا مسح سر کے ساتھ کرنا اور اس بات کی دلیل کہ کان سر کا حکم رکھتے ہیں
)
Sunan-nasai:
Description Of Wudu'
(Chapter: Wiping The Ears Along With The Head. And The Evidence That They Are Part Of The Head)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
103.
حضرت عبد اللہ صنابحی ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جب مومن بندہ وضو کرتے ہوئے کلی کرتا ہے تو اس کے منہ کی غلطیاں اس کے منہ سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ ناک جھاڑتا ہے تو ناک کی غلطیاں ناک سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ منہ دھوتا ہے تو چہرے کی غلطیاں چہرے سے حتیٰ کہ آنکھوں کی پلکوں سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو ہاتھوں کی غلطیاں اس کے ہاتھوں سے حتیٰ کہ ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کی غلطیاں سر سے حتیٰ کہ اس کے کانوں سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس کے پاؤں کی غلطیاں پاؤں سے حتیٰ کہ پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے نکل جاتی ہیں، پھر اس کا مسجد کی طرف چلنا اور اس کی نماز (ان دو کاموں کا ثواب) اس کے لیے زائد ہوتے ہیں۔ فتیبہ نے یوں بیان کیا (عن الصنابحی ان النبي ﷺ قال) یعنی صنابحی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا۔
تشریح:
(1) امام صاحب کا آخری جملے [قَالَ قُتَيْبَةُ عَنْ ……] سے مقصود یہ ہے کہ اس روایت میں میرے دو اساتذہ میں سے ایک، یعنی عتبہ بن عبداللہ نے (آن رسول اللہ) کہا جب کہ دوسرے استاذ قتیبہ نے (أن النبي ﷺ) کہا، اگرچہ اس لفظی اختلاف کا سند یا متن حدیث پر ذرہ بھر بھی اثر نہیں پڑتا مگر محدثین کا یہ کمال حفظ و ضبط ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کے معمولی سے اختلاف کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ اس سے ان کی دیانت داری کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ رحمهم اللہ رحمه واسعة۔ (2) ’’غلطیاں نکل جاتی ہیں۔‘‘ اس سے مراد غلطیوں کے اثرات ہیں کیونکہ گناہوں کے اثرات متعلقہ اعضاء میں جاگزین ہو جاتے ہیں۔ وضو کے ساتھ جس طرح جسم ظاہری نجاست اور میل کچیل سے پاک ہو جاتا ہے، اسی طرح اعضائے وضو گناہوں کے اثرات سے پاک ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً جسم ظاہری اور معنوی طور پر، یعنی میل کچیل اور گناہوں دونوں سے صاف ہو جاتا ہے۔ (3) اس حدیث میں سر اور کانوں کا مسح اکٹھا ذکر کیا گیا ہے۔ حقیقتاً بھی کانوں کا مسح الگ نہیں ہوتا بلکہ سر والے پانی ہی سے کانوں کا مسح کیا جاتا ہے۔ اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ کانوں کے لیے الگ پانی لینے کے قائل ہیں مگر یہ صحیح حدیث کے خلاف ہے۔ گویا کان سر ہی میں داخل ہیں۔ اس مفہوم کی ایک صریح روایت بھی موجود ہے۔ [الاذنان من الرأس]’’کان سر میں شامل ہیں۔‘‘(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: ۱۳۴، و سنن ابن ماجه، الطھارة، حدیث: ۴۴۳) بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ کانوں کا سامنے والا حصہ منہ میں داخل ہے، لہٰذا اسے منہ کے ساتھ دھویا جائے اور پچھلا حصہ سر میں داخل ہے، لہٰذا اس کا سر کے ساتھ مسح کیا جائے۔ اسی طرح بعض لوگ کانوں کو چہرے کی طرح دھونے کے قائل ہیں مگر ان کی بنیاد قیاس پر ہے۔ صحیح و صریح احادیث کے مقابلے میں قیاس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ مذموم ہے۔ (4) جس دلیل کی طرف امام صاحب نے باب میں اشارہ فرمایا ہے، وہ یہ لفظ ہیں: [خرجت الخطایا من رأسه حتٰی تخرج من أذنیه] انھی الفاظ میں سر کی غلطیوں کا کانوں سے نکلنا بتلایا گیا ہے۔ معلوم ہوا کانوں کا حکم سر والا ہے، یعنی مسح۔ (5) [نَافِلَةً]’’زائد‘‘ یعنی رفع درجات کا سبب بن جائیں گے۔
حضرت عبد اللہ صنابحی ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جب مومن بندہ وضو کرتے ہوئے کلی کرتا ہے تو اس کے منہ کی غلطیاں اس کے منہ سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ ناک جھاڑتا ہے تو ناک کی غلطیاں ناک سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ منہ دھوتا ہے تو چہرے کی غلطیاں چہرے سے حتیٰ کہ آنکھوں کی پلکوں سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو ہاتھوں کی غلطیاں اس کے ہاتھوں سے حتیٰ کہ ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کی غلطیاں سر سے حتیٰ کہ اس کے کانوں سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس کے پاؤں کی غلطیاں پاؤں سے حتیٰ کہ پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے نکل جاتی ہیں، پھر اس کا مسجد کی طرف چلنا اور اس کی نماز (ان دو کاموں کا ثواب) اس کے لیے زائد ہوتے ہیں۔ فتیبہ نے یوں بیان کیا (عن الصنابحی ان النبي ﷺ قال) یعنی صنابحی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام صاحب کا آخری جملے [قَالَ قُتَيْبَةُ عَنْ ……] سے مقصود یہ ہے کہ اس روایت میں میرے دو اساتذہ میں سے ایک، یعنی عتبہ بن عبداللہ نے (آن رسول اللہ) کہا جب کہ دوسرے استاذ قتیبہ نے (أن النبي ﷺ) کہا، اگرچہ اس لفظی اختلاف کا سند یا متن حدیث پر ذرہ بھر بھی اثر نہیں پڑتا مگر محدثین کا یہ کمال حفظ و ضبط ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کے معمولی سے اختلاف کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ اس سے ان کی دیانت داری کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ رحمهم اللہ رحمه واسعة۔ (2) ’’غلطیاں نکل جاتی ہیں۔‘‘ اس سے مراد غلطیوں کے اثرات ہیں کیونکہ گناہوں کے اثرات متعلقہ اعضاء میں جاگزین ہو جاتے ہیں۔ وضو کے ساتھ جس طرح جسم ظاہری نجاست اور میل کچیل سے پاک ہو جاتا ہے، اسی طرح اعضائے وضو گناہوں کے اثرات سے پاک ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً جسم ظاہری اور معنوی طور پر، یعنی میل کچیل اور گناہوں دونوں سے صاف ہو جاتا ہے۔ (3) اس حدیث میں سر اور کانوں کا مسح اکٹھا ذکر کیا گیا ہے۔ حقیقتاً بھی کانوں کا مسح الگ نہیں ہوتا بلکہ سر والے پانی ہی سے کانوں کا مسح کیا جاتا ہے۔ اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ کانوں کے لیے الگ پانی لینے کے قائل ہیں مگر یہ صحیح حدیث کے خلاف ہے۔ گویا کان سر ہی میں داخل ہیں۔ اس مفہوم کی ایک صریح روایت بھی موجود ہے۔ [الاذنان من الرأس]’’کان سر میں شامل ہیں۔‘‘(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: ۱۳۴، و سنن ابن ماجه، الطھارة، حدیث: ۴۴۳) بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ کانوں کا سامنے والا حصہ منہ میں داخل ہے، لہٰذا اسے منہ کے ساتھ دھویا جائے اور پچھلا حصہ سر میں داخل ہے، لہٰذا اس کا سر کے ساتھ مسح کیا جائے۔ اسی طرح بعض لوگ کانوں کو چہرے کی طرح دھونے کے قائل ہیں مگر ان کی بنیاد قیاس پر ہے۔ صحیح و صریح احادیث کے مقابلے میں قیاس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ مذموم ہے۔ (4) جس دلیل کی طرف امام صاحب نے باب میں اشارہ فرمایا ہے، وہ یہ لفظ ہیں: [خرجت الخطایا من رأسه حتٰی تخرج من أذنیه] انھی الفاظ میں سر کی غلطیوں کا کانوں سے نکلنا بتلایا گیا ہے۔ معلوم ہوا کانوں کا حکم سر والا ہے، یعنی مسح۔ (5) [نَافِلَةً]’’زائد‘‘ یعنی رفع درجات کا سبب بن جائیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ صنابحی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب بندہ مومن وضو کرتے ہوئے کلی کرتا ہے تو اس کے منہ کے گناہ نکل جاتے ہیں، جب ناک جھاڑتا ہے تو اس کی ناک کے گناہ نکل جاتے ہیں، جب اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے کے گناہ نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اس کی دونوں آنکھ کے پپوٹوں سے نکلتے ہیں، پھر جب اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھ کے گناہ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھ کے ناخنوں کے نیچے سے نکلتے ہیں، پھر جب اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کے دونوں کانوں سے نکل جاتے ہیں پھر جب وہ اپنے دونوں پاؤں دھوتا ہے تو اس کے دونوں پاؤں سے گناہ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں پاؤں کے ناخن کے نیچے سے نکلتے ہیں، پھر اس کا مسجد تک جانا اور اس کا نماز پڑھنا اس کے لیے نفل ہوتا ہے۔“ قتیبہ کی روایت میں «عن الصنابحي أن رسول اللہ رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال» کے بجائے «عن الصنابحي أن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال» ہے۔
حدیث حاشیہ:
”گناہ نکل جاتے ہیں“ اس سے مراد صغائر (گناہ صغیرہ) ہیں نہ کہ کبائر (گناہ کبیرہ) اس لیے کہ کبائر بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ مصنف نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ دونوں کان سر ہی کا حصہ ہیں کیونکہ سر پر مسح کرنے سے دونوں کانوں سے خطاؤں کا نکلنا اسی صورت میں صحیح ہو گا جب وہ سر ہی کا حصہ ہوں، اس باب میں مصنف کو «الأذنان من الرأس» والی مشہور روایت ذکر کرنی چاہیئے تھی لیکن مصنف نے اس سے صرف نظر کیا کیونکہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ حماد کو اس روایت کے سلسلہ میں شک ہے کہ یہ مرفوع ہے یا موقوف، نیز اس کی سند بھی قوی نہیں ہے،اگرچہ متعدد طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے حسن درجہ کو پہنچ گئی ہے، مصنف کا اس روایت سے اعراض کر کے مذکورہ بالا روایت سے استدلال کرنا ان کی دقت نظری کی دلیل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘Abdullah As-Sunabihi that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “When the believing slave performs Wudu’ and rinses his mouth, his sins come out from his mouth. When he sniffs water into his nose and blows it out, his sins come out from his nose. When he washes his face, his sins come out from his face, even from beneath his eyelashes. When he washes his hands, his sins come out from his hands, even from beneath his fingernails. When he wipes his head, his sins come out from his head, even from his ears. When he washes his feet, his sins come out from his feet, even from beneath his toenails. Then his walking to the Masjid and his Salah will earn extra merit for him.” (Hasan)