Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: Clasping one's hands together)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1031.
حضرت علقمہ سے منقول ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں نماز سکھلائی۔ پھر عبداللہ بن مسعود ؓ اٹھے اور اللہ أکبر کہا۔ جب رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسا کر ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان رکھ لیا۔ یہ بات حضرت سعد ؓ کو پہنچی تو انھوں نے فرمایا، میرے بھائی (ابن مسعود) نے سچ کہا مگر ہم یہ کام پہلے کیا کرتے تھے، پھر (رسول اللہ ﷺ کی طرف سے) ہمیں گھٹنے پکڑنے کا حکم دیا گیا۔
تشریح:
اس طریقے کو تطبیق کہتے ہیں جو کہ منسوخ ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو پتہ نہ چلا، اس لیے وہ یہ کرتے تھے مگر فقہائے امت میں سے کسی نے ان کی یہ بات تسلیم نہیں کی حتیٰ کہ احناف نے بھی جو کہ عموماً ان کی بات رد نہیں کرتے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرح المرفوع منه: مسلم وأبو عوانة في
"صحيحيهما"
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا محمد بن فُضَيْل عن هارون بن
عنترة عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبيه قال...
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير هارون بن
عنترة؛ وهو ثقة.
وتناقض فيه ابن حبان! واختلف النقل عن الدارقطني؛ ففي "التهذيب ":
" وقال البرقاني: سألت الدارقطني عن عبد الملك بن هارون بن عنترة؟ فقال:
متروك يكذب، وأبوه يحتج به، وجلّه يعتبر به "!
وكذا في "الميزان " في ترجمة هارون هذا. وأما في ترجمة ابنه عبد الملك؛
فقال: إنه " يروي عن أبيه. قال الدارقطني: هما ضعيفان ".
وأقره في "اللسان ".
وأما ما نقله الزيلعي (2/33) عن النووي أنه قال:
" فيه هارون بن عنترة، وهو وإن وثقه أحمد وابن معين؛ فقد قال الدارقطني:
هو متروك كان يكذب "!
فإنه نقل خطأ عن الدارقطني؛ فإنما قال هذا في (عبد الملك) ابن المترجم، كما
نقلناه آنفاً من الكتب الموثوقة! والله أعلم. وقال المنذري في "مختصره" :
" وفي إسناده هارون بن عنترة، وقد تكلم فيه بعضهم. وقال أبو عمر النمَري:
وهذا الحديث لا يصح رفعه، والصحيح فيه عندهم التوقيف على ابن مسعود: أنه
كذلك صلى بعلقمة والأسود. وهذا الذي أشار إليه أبو عمر؛ قد أخرجه مسلم في
"صحيحه "، وهو موقوف ".
قلت: قد أخرجه مسلم مرفوعاً أيضا كما سنبينه.
وهارون بن عنترة؛ لم يتكلم فيه غير الدارقطني وابن حبان؛ مع أنهما وثقاه
أيضا؛ فالأخذ بتوثيقهما إياه أولى؛ لأمرين:
الأول: أنه جرح غير مفسر.
والأخر: أنه موافق لحكم الأئمة الأخرين عليه بالثقة.
ثم إنه لم يمرد به؛ بل قد تابعه محمد بن إسحاق عن عبد الرحمن بن
الأسود، ومنصور عن إبراهيم عن علقمة والأسود، كما يأتي.
والحديث أخرجه أحمد (رقم 4030) : حدثنا ابن فضيل... به.
وأخرجه النسائي (1/128- 129) من طريق أخرى عن ابن فضيل... به؛
لكن لم يقل: عن أبيه! فصار ظاهره الانقطاع!
وليس كذلك؛ بل هو متصل؛ بدليل رواية المصنف والنسائي؛ وفيه عنده زيادة
في أوله.
وأخرجه الطحاوي (1/181) ، والبيهقي (3/98) ، وأحمد (رقم 4311) من
طريق محمد بن إسحاق عن عبد الرحمن بن الأسود.
فهذه متابعة قوية لهارون بن عنترة.
وقد أعله النووي- كما في "نصب الراية" (2/34) - بقوله:
" وابن إسحاق مشهور بالتدليس، وقد عنعن، والمدلس إذا عنعن لا يحتج به
بالاتفاق "!
قلت: قد صرح بسماعه في رواية لأحمد (رقم 4386) : حدثنا يعقوب:
حدثنا أبي عن ابن إسحاق قال: وحدثني عبد الرحمن بن الأسي بن يزيد
النخعي قال:
دخلت أنا وعمي علقمة على عبد الله بن مسعود بالهاجرة، قال: فأقام الظهر
ليصلي، فقمنا خلفه، فأخذ بيدي ويد عمي، ثم جعل أحدنا عن يمينه والأخر عن
يساره، ثم قام بيننا، فصففنا خلفه صفاً واحدأ، قال: ثم قال: هكذا كان رسول
الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يصنع إذا كانوا ثلاثة... الحديث.
فزالت شيهة التدليس، وعاد الحديث صحيحاً لا شبهة فيه.
وتابعه أيضا أبو إسحاق عن ابن الأسود عن علقمة والأسود:
أنهما كانا مع ابن مسعود، فحضرت الصلاة، فتأً خر علقمة والأسود، فأخذ
ابن مسعود بأيديهما، فأقام أحدهما عن يمينه والآخر عن يساره، ثم ركعا، فوضعا
أيديهما على ركبهما وضرب أيديهما، ثم طبَّق بين يديه وشبك، وجعلهما بين
فخذيه، وقال: رأيت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فعله.
أخرجه أحمد (رقم 3927 و 3928) من طريق إسرائيل عنه.
وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وإسرائيل: هو ابن يونس بن أبي
إسحاق السبيعي؛ وأبو إسحاق هو جده.
ولإسرائيل فيه إسناد آخر:
رواه مسلم (2/69) ، وأبو عوانة (2/166) من طريق عبيد الله بن موسى عنه
عن منصور عن إبراهيم عن علقمة والأسود... به مثل حديثه عن جده؛ إلا أنه
قال في آخره:
فلما صلى قال: هكذا فعل رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فهذا صريح- أو كالصريح- في أن كلاً من الميامنة والمياسرة، والتطبيق: مرفوع
إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ولا يعكر على هذا: أن الأعمش رواه عن إبراهيم ولم يصرح برفع الأمر الأول
منهما؛ لما عرف أن زيادة الثقة مقبولة؛ لا سيما إذا جاءت من طريق أخرى، كما
في حديث الباب.
وحديث الأعمش سيأتي بعضه في الكتاب (رقم 814) .
وبالجملة؛ فالحديث صحيح مرفوع إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وإن من أعله بالوقف
مخطئ؛ لأنه لم يتتبع طرقه، ولم يتوسع في تخريجه!
صحیح ابی داؤد(814)
حضرت علقمہ سے منقول ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں نماز سکھلائی۔ پھر عبداللہ بن مسعود ؓ اٹھے اور اللہ أکبر کہا۔ جب رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسا کر ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان رکھ لیا۔ یہ بات حضرت سعد ؓ کو پہنچی تو انھوں نے فرمایا، میرے بھائی (ابن مسعود) نے سچ کہا مگر ہم یہ کام پہلے کیا کرتے تھے، پھر (رسول اللہ ﷺ کی طرف سے) ہمیں گھٹنے پکڑنے کا حکم دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
اس طریقے کو تطبیق کہتے ہیں جو کہ منسوخ ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو پتہ نہ چلا، اس لیے وہ یہ کرتے تھے مگر فقہائے امت میں سے کسی نے ان کی یہ بات تسلیم نہیں کی حتیٰ کہ احناف نے بھی جو کہ عموماً ان کی بات رد نہیں کرتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز سکھائی، آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے اللہ اکبر کہا، تو جب آپ نے رکوع کرنا چاہا تو اپنے ہاتھوں کو ملا کر اپنے دونوں گھٹنوں کے بیچ کر لیا، اور رکوع کیا، یہ بات سعد ؓ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا: میرے بھائی نے سچ کہا، ہم پہلے ایسا ہی کرتے تھے، پھر ہمیں اس کا یعنی ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑنے کا حکم دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Abdullah said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) taught us the prayer. He stood up and said the takbir, and when he wanted to bow, he put his hands together and put his hands between his knees and bowed". News of that reached Sa'd and he said: "My brother has spoken the truth. We used to do that, then we were commanded to do this", meaning to hold the knees.