Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: What the person praying behind the imam should say)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1061.
حضرت انس ؓ سے مروی ہے، نبی ﷺ گھوڑے سے دائیں پہلو پر گر پڑے تو صحابہ بیمار پرسی کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نماز کا وقت ہوگیا۔ جب آپ نے نماز پوری کرلی تو فرمایا: ”امام اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] کہے تو تم [رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] کہو۔“
تشریح:
(1) جمہور اہل علم نے اس سے استدلال کیا ہے کہ مقتدی صرف [رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] کہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ مقتدی کو [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] بھی کہنا چاہیے تاکہ امام کی اقتدا ہو جائے، پھر [رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] کہے۔ بظاہر یہی موقف راجح ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] پڑھنے کی نفی نہیں۔ بلکہ اس میں تو [رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] کے محل کا تعین ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مقتدی امام کے سمع اللہ کے ساتھ یا اس سے قبل یہ کلمات نہ کہے بلکہ اس کے بعد کہے۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ آیا مقتدی بھی [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] کے گا یا نہیں؟ اس حوالے سے اس حدیث میں کوئی صراحت نہیں بلکہ مقتدی کے لیے ان کلمات کی مشروعیت دوسری احادیث کے عموم سے اخذ ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے [صلُّواكما رأيتُموني أصلِّي] ”نماز اسی طریقے سے پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مسیئی الصلاۃ“ (نماز کو جلدی جلدی اور غلط طریقے سے پڑھنے والے) سے مخاطب ہوکر فرمایا: [إنه لاتتمُّصلاةٌلأحدٍمنالناسِ حتّى يتوضأ ……… ثمَّ يقولُ: سمِع اللهُ لمن حمِدَهُ، حتّى يستويَ قائمًا……]”حقیقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے کسی ایک کی بھی نماز اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اچھی طرح وضو نہ کرے……، پھر سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہے، یہاں تک کہ برابر اور اعتدال کے ساتھ کھڑا ہو جائے………“ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: ۸۵۷، و صفة الصلاة، ص:۱۱۸) اس حدیث کی رو سے امام اور مقتدی وغیرہ سب ا کلمات کے کہنے کے مکلف ہیں۔ واللہ أعلم۔ (2) [رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] بعض روایات میں بغیر واؤ کے آیا ہے۔ اور بعض میں ”اللھم“ اور ”واو“ کے اضافے کے ساتھ بھی، یعنی [رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] اور [اللھم رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] تینوں کلمات میں سے کوئی بھی کہے جا سکتے ہیں سب جائز ہے بہتر ہے کہ ادائیگی میں تنوع ہو۔ مزید دیکھیے: (صفة صلاة، النبي، ص:۱۱۸ للألباني)
حضرت انس ؓ سے مروی ہے، نبی ﷺ گھوڑے سے دائیں پہلو پر گر پڑے تو صحابہ بیمار پرسی کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نماز کا وقت ہوگیا۔ جب آپ نے نماز پوری کرلی تو فرمایا: ”امام اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] کہے تو تم [رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] کہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) جمہور اہل علم نے اس سے استدلال کیا ہے کہ مقتدی صرف [رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] کہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ مقتدی کو [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] بھی کہنا چاہیے تاکہ امام کی اقتدا ہو جائے، پھر [رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] کہے۔ بظاہر یہی موقف راجح ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] پڑھنے کی نفی نہیں۔ بلکہ اس میں تو [رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] کے محل کا تعین ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مقتدی امام کے سمع اللہ کے ساتھ یا اس سے قبل یہ کلمات نہ کہے بلکہ اس کے بعد کہے۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ آیا مقتدی بھی [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] کے گا یا نہیں؟ اس حوالے سے اس حدیث میں کوئی صراحت نہیں بلکہ مقتدی کے لیے ان کلمات کی مشروعیت دوسری احادیث کے عموم سے اخذ ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے [صلُّواكما رأيتُموني أصلِّي] ”نماز اسی طریقے سے پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مسیئی الصلاۃ“ (نماز کو جلدی جلدی اور غلط طریقے سے پڑھنے والے) سے مخاطب ہوکر فرمایا: [إنه لاتتمُّصلاةٌلأحدٍمنالناسِ حتّى يتوضأ ……… ثمَّ يقولُ: سمِع اللهُ لمن حمِدَهُ، حتّى يستويَ قائمًا……]”حقیقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے کسی ایک کی بھی نماز اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اچھی طرح وضو نہ کرے……، پھر سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہے، یہاں تک کہ برابر اور اعتدال کے ساتھ کھڑا ہو جائے………“ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: ۸۵۷، و صفة الصلاة، ص:۱۱۸) اس حدیث کی رو سے امام اور مقتدی وغیرہ سب ا کلمات کے کہنے کے مکلف ہیں۔ واللہ أعلم۔ (2) [رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] بعض روایات میں بغیر واؤ کے آیا ہے۔ اور بعض میں ”اللھم“ اور ”واو“ کے اضافے کے ساتھ بھی، یعنی [رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] اور [اللھم رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] تینوں کلمات میں سے کوئی بھی کہے جا سکتے ہیں سب جائز ہے بہتر ہے کہ ادائیگی میں تنوع ہو۔ مزید دیکھیے: (صفة صلاة، النبي، ص:۱۱۸ للألباني)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ گھوڑے سے اپنے داہنے پہلو پر گر پڑے، تو لوگ آپ کی عیادت کرنے آپ کے پاس آئے کہ (اسی دوران) نماز کا وقت ہو گیا، (تو آپ نے انہیں نماز پڑھائی) جب آپ نے نماز پوری کر لی تو فرمایا: ”امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہے، تو تم «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ»“ کہو۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں کہ مقتدی اور امام دونوں «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» نہ کہیں جیسا کہ اس میں اس بات کی دلیل نہیں کہ امام اور مقتدی دونوں «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہیں کیونکہ یہ حدیث اس بات کے بیان کے لیے نہیں آئی ہے کہ اس موقع پر امام یا مقتدی کیا کہیں بلکہ اس حدیث کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ مقتدی «رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ» امام کی «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کے بعد پڑھے، اس بات کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امام ہونے کے باوجود «رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ» کہتے تھے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث «صلُّواكما رأيتُموني أصلِّي» کا عموم بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ مقتدی بھی امام کی طرح «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Anas (RA) that: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) fell from a horse onto his right side, and they entered upon him to visit him. The time for prayer came, and when he had finished praying he said: "The Imam is appointed to be followed, so when he bows, then bow, and when he stands up, then stand up, and when he says: 'Sami' Allahu liman hamidah (Allah hears the one who praises Him)' then say: 'Rabbana wa lakal-hamd (Our Lord, and to You be the praise)'".