Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: What the person praying behind the imam should say)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1062.
حضرت رفاعہ بن رافع ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ہم ایک دن رسول اللہ ﷺکے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ نے رکوع سے سر اٹھایا تو کہا [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] آپ کے مقتدیوں میں سے ایک آدمی نے (ذرا بلند آواز سے) کہا: [رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ] ”اے ہمارے رب! تیرے ہی لیے سب تعریفیں ہیں۔ بہت زیادہ، پاکیزہ اور بابرکت تعریفیں۔“ جب اللہ کے رسول ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”کس شخص نے ابھی کچھ کلام کیا تھا؟“ اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں نے تیس (۳۰) سے زائد فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ان کلمات کی طرف ایک دوسرے سے سبقت کر رہے تھے کہ کون انھیں پہلے لکھے۔“ (اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرے۔)
تشریح:
(1) ان روایات میں مقتدی کے لیے [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] کہنے کی نفی ہے نہ ذکر و اثبات، اس لیے دیگر مفصل روایات کی طرف رجوع لازمی ہے، جیسا کہ حدیث: ۱۰۶۳ کے فوائد کے تحت گزر چکا ہے۔ (2) بعض حضرات نے اس روایت سے ان کلمات کو بلند آواز سے کہنے پر استدلال کیا ہے مگر حیرانی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جلیل القدر صحابہ کے طرز عمل کو نظر انداز کر دیا جو آہستہ پڑھتے تھے اور ایک صحابی کے اتفاقی فعل سے استدلال کر لیا، حالانکہ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ فعل اس صحابی سے بے اختیار یا اتفاقاً صادر ہوا تھا۔ اگر یہ عام معمول ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استفسار کیوں فرماتے؟ لٰذا یہ کلمات آہستہ ہی کہنے چاہئیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده عنه صحيح) .
إسناده: حدثنا القعنبي قال: قال مالك.
قلت: وهذا إسناد صحيح إلى مالك رحمه الله. قال في "عون المعبود":
" هذا نص صريح من الإمام مالك رحمه الله على أنه لا بأس عنده بقراءة
دعاء الاستفتاح بين التكبير والقراءة، لكن المشهور عنه خلافه ".
قلت: وهو الذي نص عليه في "المدونة" (1/62) أنه لا يقول: " سبحانك
اللهم وبحمدك... إلخ "؛ قال:
" وكان لا يعرف "!
وهذا لا حجة فيه؛ فإن من عرف حجة على من لم يعرف وقد ثبت عنه
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَُ اثنا عشر نوعاً من أدعية الاستفتاح، أوردتها في "صفة صلاة النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "
(ص 52- 57) ؛ وقد نم طبعه قريباً، وأورد المصنف قسماً منها في هذا الباب.
744/م- عن رِفَاعة بن رافع الزرَقي قال:
كنا يوماً نصلِّي وراء رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ فلما رفع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رأسه
من الركوع قال: " سمع الله لمن حمده "؛ قال رجل وراء رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
اللهم ربَّنا! ولك الحمدُ حمداً كثيراً طيباً مباركاً فيه. فلما انصرف رسول
الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال:
" من المتكلم بها آنفاً؟ ".
فقال الرجل: أنا يا رسول الله! فقال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
" لقد رأيت بضعة وثلاثين مَلَكاً يبتدرونها؛ أيُّهم يكتبها آؤلُ؟! ".
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه في "صحيحه ".
وقال الحاكم: " حديث صحيح "، ووافقه الذهبي) .
إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن نُعَيْمِ بن عبد الله الُمجْمِر عن علي بن
يحيى الزُرَقِي عن أبيه عن رفاعة بن رافع الزرَقي.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري؛ وقد أخرجه كما يأتي.
والحديث أخرجه مالك في " الموطأً " (1/214) .
ومن طريقه: أخرجه البخاري (2/227- 228) ، والنسائي (1/162) ،
والحاكم (1/225) ، والبيهقي (2/95) ، وأحمد (4/340) كلهم عن مالك...
به. وهو عند البخاري من طريق القعنبي عبد الله بن مسلمة شيخ المصنف فيه.
ومن طريقه: أخرجه البيهقي في إحدى روايتيه. ثم قال الحاكم:
" حديث صحيح، ولم يخرجاه "! ووافقه الذهبي!
وقد وهما في الاستدراك على البخاري؛ فقد أخرجه!
وللحديث طريق أخرى عن رقاعة بن رافع، ويأتي في الكتاب بعد حديث.
وله شواهد، خرجتها في كتابنا المفرد في "صفة صلاة النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "؛ وعسى
أن يُيَسرَ لنا طبعه مع تخريجه؛ بعد أن طبع دون تخريج.
حضرت رفاعہ بن رافع ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ہم ایک دن رسول اللہ ﷺکے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ نے رکوع سے سر اٹھایا تو کہا [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] آپ کے مقتدیوں میں سے ایک آدمی نے (ذرا بلند آواز سے) کہا: [رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ] ”اے ہمارے رب! تیرے ہی لیے سب تعریفیں ہیں۔ بہت زیادہ، پاکیزہ اور بابرکت تعریفیں۔“ جب اللہ کے رسول ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”کس شخص نے ابھی کچھ کلام کیا تھا؟“ اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں نے تیس (۳۰) سے زائد فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ان کلمات کی طرف ایک دوسرے سے سبقت کر رہے تھے کہ کون انھیں پہلے لکھے۔“ (اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرے۔)
حدیث حاشیہ:
(1) ان روایات میں مقتدی کے لیے [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] کہنے کی نفی ہے نہ ذکر و اثبات، اس لیے دیگر مفصل روایات کی طرف رجوع لازمی ہے، جیسا کہ حدیث: ۱۰۶۳ کے فوائد کے تحت گزر چکا ہے۔ (2) بعض حضرات نے اس روایت سے ان کلمات کو بلند آواز سے کہنے پر استدلال کیا ہے مگر حیرانی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جلیل القدر صحابہ کے طرز عمل کو نظر انداز کر دیا جو آہستہ پڑھتے تھے اور ایک صحابی کے اتفاقی فعل سے استدلال کر لیا، حالانکہ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ فعل اس صحابی سے بے اختیار یا اتفاقاً صادر ہوا تھا۔ اگر یہ عام معمول ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استفسار کیوں فرماتے؟ لٰذا یہ کلمات آہستہ ہی کہنے چاہئیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
رفاعہ بن رافع ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہا، تو آپ کے پیچھے ایک شخص نے «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ»” اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں جو پاکیزہ و بابرکت ہیں۔“ کہا، جب رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو آپ ﷺ نے پوچھا: ”ابھی ابھی (نماز میں) کون بول رہا تھا؟ ”تو اس شخص نے عرض کیا: میں تھا اللہ کے رسول! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو دیکھا ان میں سے ہر ایک سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے کون پہلے لکھے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Rifa'ah bin Rafi said: "We were praying behind the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) one day and when he raised his head from bowing he said: 'Sami Allahu liman hamidah (Allah hears the one who praises Him)'. A man behind him said: 'Rabbana wa lakal-hamd, hamdan kathiran tayyiban mubarakan fih. (O our Lord, and to You be praise, much blessed and pure praise.)' When the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) had finished, he said: "Who is the one who spoke just now"? The man said: 'I did, O Messenger of Allah.' The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'I saw thirty-some angels rushing to see which of them would write it down first'".