Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: The Takbir when prostrating)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1082.
حضرت مطرف سے روایت ہے کہ حضرت عمران بن حصین ؓ نے اور میں نے حضرت علی بن ابو طالب ؓ کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ جب سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب سجدے سے سر اٹھاتے، تب بھی اللہ اکبر کہتے اور جب دو رکعتوں سے اٹھتے، تب بھی اللہ اکبر کہتے۔ جب آپ نے نماز پوری کرلی تو حضرت عمران بن حصین ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اللہ کی قسم! ان صاحب نے مجھے محمد ﷺ کی نماز یاد کرا دی ہے۔
تشریح:
(1) پیچھے گزر چکا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم ہی کے دور میں بعض ائمہ نے تکبیر کہنے میں سستی شروع کر دی تھی۔ یا تو کہتے ہی نہیں تھے یا بہت آہستہ بلکہ زیر لب کتے تھے۔ یہ نزاکت تھی، کوئی عذر نہ تھا، لہٰذا ایسا کرنا مذموم تھا۔ ہاں عذر ہو تو الگ بات ہے، جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی تکبیر کی آواز پچھلی صفوں کو سنائی نہ دیتی تھی۔ (2) حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ وہ کس قدر سنت نبوی کے محافظ اور عامل تھے کہ جب اکثر لوگ تکبیرات انتقال چھوڑ چکے تھے بلکہ بعض ان کی مشروعیت کا انکار بھی کرتے تھے، ایسے وقت میں انھوں نے ان کا احیا (انھیں زندہ) کیا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وكذا أبو عوانة
في "صحاحهم ") .
إسناده: حدثنا سليمان بن حرب: ثنا حماد عن غَيْلان بن جرير عن
مُطَرفً.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات على شرط الشيخين؛ وقد
أخرجاه كما يأتي.
والحديث أخرجه البيهقي (2/134) من طريق المصنف.
وأخرجه البخاري (2/136) ، وأحمد (4/444) : حدئنا سليمان بن
حرب... به.
وأخرجه أبو عوانة (2/96) من طريق أخرى عن سليمان... به.
وأخرجه هو، والبخاري (2/130) ، ومسلم (2/8) ، والنسائي (1/164) ،
والبيهقي، وأحمد (4/445 و 444) ، والطيالسي (1/95/418) من طرق أخرى
عن حماد بن زيد... به.
وتابعه سعيد بن أبي عروبة، فقال أحمد (4/428) : ثنا محمد بن جعفر: ثنا
سعيد عن غَيْلان بن جرير. وعبد الوهاب عن صاحب له عن غيلان... به.
وقال في مكان آخر (4/432) : ثنا عبد الوهاب: ئنا خالد عن رجل عن
مطرف بن الشِّخِّير... به؛ نحوه، وزاد:
فقلت: يا أبا نجَيْد! من أول من تركه؟ قال: عثمان رضي الله عنه حين كَبِرَ
وضَعف صوته؛ تركه.
وتابعه قتادة عن مطَرِّف بن عبد الله بن الشِّخير، فقال أحمد (4/429) : ثنا
عبد الرزاق: ثنا معمر عن قتاً دة وغير واحد عن مطرف... به.
حضرت مطرف سے روایت ہے کہ حضرت عمران بن حصین ؓ نے اور میں نے حضرت علی بن ابو طالب ؓ کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ جب سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب سجدے سے سر اٹھاتے، تب بھی اللہ اکبر کہتے اور جب دو رکعتوں سے اٹھتے، تب بھی اللہ اکبر کہتے۔ جب آپ نے نماز پوری کرلی تو حضرت عمران بن حصین ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اللہ کی قسم! ان صاحب نے مجھے محمد ﷺ کی نماز یاد کرا دی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) پیچھے گزر چکا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم ہی کے دور میں بعض ائمہ نے تکبیر کہنے میں سستی شروع کر دی تھی۔ یا تو کہتے ہی نہیں تھے یا بہت آہستہ بلکہ زیر لب کتے تھے۔ یہ نزاکت تھی، کوئی عذر نہ تھا، لہٰذا ایسا کرنا مذموم تھا۔ ہاں عذر ہو تو الگ بات ہے، جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی تکبیر کی آواز پچھلی صفوں کو سنائی نہ دیتی تھی۔ (2) حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ وہ کس قدر سنت نبوی کے محافظ اور عامل تھے کہ جب اکثر لوگ تکبیرات انتقال چھوڑ چکے تھے بلکہ بعض ان کی مشروعیت کا انکار بھی کرتے تھے، ایسے وقت میں انھوں نے ان کا احیا (انھیں زندہ) کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مطرف کہتے ہیں کہ میں نے اور عمران بن حصین ؓ دونوں نے علی بن ابی طالب ؓ کے پیچھے نماز پڑھی، جب وہ سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو اللہ اکبر کہتے، جب وہ نماز پڑھ چکے تو عمران ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: انہوں نے مجھے محمد ﷺ کی نماز یاد دلا دی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Mutarrif said: "Imran bin Husain and I prayed behind Ali bin Abi Talib. When he prostrated he said the Takbir, and when he raised his head from prostration he said the takbir, and when he stood up following two rak'ahs he said the takbir, and when he had finished praying, 'Imran took my hand and said: 'This reminded me of- he said a word meaning- the prayer of Muhammad (صلی اللہ علیہ وسلم)'".