باب: سجدے کو جاتے وقت انسان کا کون سا عضو زمین پر پہلے لگنا چاہیے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: The first part of the body that should reach the ground when a person prostrates)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1091.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی آدمی سجدہ کرنے لگے تو اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے اور اونٹ کی طرح نہ بیٹھے۔‘‘
تشریح:
باب کی تیسری روایت دوسری روایت کی تفصیل ہے اور یہ پہلی روایت کے بالکل الٹ ہے۔ پہلی روایت اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہے جیسا کہ محقق کتاب نے بھی اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے، تاہم بعض نے اسے صحیح بھی کہا ہے، اس لیے ان کے نزدیک دونوں طرح جائز ہے کیونکہ ان کے خیال میں دونوں روایات صحیح ہیں۔ احناف وغیرہ نے حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دی ہے کیونکہ جو عضو زمین کے زیادہ قریب ہے، وہ پہلے لگنا چاہیے اور جو دور ہے، وہ بعد میں۔ اکثر محدثین نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دی ہے کیونکہ حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی روایت پر عمل کرنے سے اونٹ سے مشابہت ہوتی ہے اور اس مشابہت سے روکا گیا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ہاتھ پہلے رکھنے چاہئیں گھٹنے بعد میں کیونکہ یہ فطرت انسانیہ کے مطابق ہے۔ اللہ تعالی ٰنے انسان کو سہارے کے لیے ہاتھ دیے ہیں۔ جانور تو مجبور ہیں کہ ان کے پاس ہاتھ نہیں ہیں، لہٰذا وہ بغیر سہارے کے بیٹھتے اٹھتے ہیں بلکہ سب کام بغیر ہاتھوں کے کرتے ہیں: کھانا، پینا، مارنا وغیرہ۔ مگر انسان کے لیے ہاتھوں کا استعمال ضروری ہے ورنہ جانوروں سے مشابہت ہو جائے گی۔ حدیث میں اونٹ کا ذکر ہے۔ اونٹ بیٹھتے وقت پہلے گھٹنے زمین پر رکھتا ہے۔ اگر گھٹنے پہلے رکھے جائیں تو ہاتھوں کا سہارا نہ ہونے کی وجہ سے گھٹنے اونٹ کی طرح زمین پر ٹکیں گے۔ بوڑھوں کے لیے مشکل بھی ہے اور چوٹ لگنے یا گرنے کا خطرہ بھی، لہٰذا اٹھتے بیٹھتے وقت ہاتھوں کا سہارا چاہیے، یعنی بیٹھتے وقت پہلے ہاتھ رکھیں، پھر گھٹنے اور اٹھتے وقت پہلے گھٹنے اٹھائیں، پھر ہاتھ۔ یاد رہے! اونٹ (بلکہ سب جانوروں) کے گھٹنے اگلے پاؤں میں ہتے ہیں، شکلا بھی، فعلا بھی، اور پچھلی ٹانگیں انسانوں کے بازوؤں جیسی ہوتی ہیں۔ چونکہ اونٹ سیدھا گھٹنوں پر بیٹھتا ہے، اس لیے اس کا خاص ذکر کیا گیا ہے اور اس کی مشابہت سے روکا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه عبد الحق الاشبيلي، وقوّاه ابن سَيدِ
الناس، وقال النووي والزّرقاني: " إسناده جيد ") .
إسناده: حدثنا سعيد بن منصور: ثنا عبد العزيز بن محمد: حدثني محمد
ابن عبد الله بن حسن عن أبي الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة... بالرواية الأولى.
حدثنا قتيبة بن سعيد: ثنا عبد الله بن نافع عن محمد بن عبد الله بن حسن
بالرواية الأُخرى.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم تمات رجال مسلم؛ غير محمد بن
عبد الله بن الحسن- وهو المعروف بـ (النَّفْس الزكيَّة) العَلَوِي- وهو ثقة كما قال
النسائي وغيره. وقال النووي في "المجموع " (3/421) ، والزرقا تي في "شرح
المواهب " (7/320) :
" إسناده جيد ".
وصححه عبد الحق في "الأحكام الكبرى ". وقال في "كتاب التهجد" (ق
1/56) :
" أحسن إسناداً من الذي قبله "؛ يعني: حديث وائل الخرج في الكتاب
الآخر (152) ، بلفظ:
رأيت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذا سجد؛ وضع ركبتيه قبل يديه.
وهذا قد ضعفه جماعة، ذكرناهم هناك؛ منهم ابن سيد الناس، ثم قال:
" ويتلخص من هذا: أن أحاديث وضع اليدين قبل الركبتين أرجح من حيث
الإسناد، وأصرح من حيث الدلالة؛ إذ هي قولية، ولما تعطيه قوة الكلام والتهجين
في التشبه بالبعير الذي ركبته في يده، فلا يمكنه تقديم يده على ركبته إذا برك؛
لأنها في الاتصال بيده كالعضو الواحد ".
وقد أعل بعضهم هذا الإسناد بعلل لا تقدح في صحته، وقد ذكرتها- معِ
الجواب عنها- في "إرواء الغليل " تحت الحديث (357) ، وخرجت له هناك شاهدآ
من حديث ابن عمر:
أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان يضع يديه قبل ركبتيه.
وإسناده صحيح.
والحديث أخرجه أحمد (2/381) ... بإسناد المصنف ولفظه؛ إلا أنه قال:
ثم ركبتيه.
وأخرجه النسائي في "الكبرى" (ق47/1- مصورة جامعة الملك عبد العزيز) ،
والطحاوي في كتابيه (1/149) ، و (65- 66) ، والبيهقي من طرق أخرى عن
سعيد بن منصور... به.
وأخرجه النسائي (1/149) ، والدارمي (1/303) ، والدارقطني (1/131) من
طرق أخرى عن عبد العزيز بن محمد الدراوردي... به بلفظ المصنف.
وأخرجه النسائي، والترمذي (2/57- 58) من طريق عبد الله بن نافع عن
محمد بن عبد الله بن حسن... به مختصراً بالرواية الثانية.
وقد انقلب الحديث على بعض الضعفاء؛ فقال:
" فليبدأ بركبتيه قبل يديه " ا
أخرجه ابن أبي شيبة في "المصنف " (1/102/2) وغيره من طريق عبد الله بن
سعيد القبري عن جده عن أبي هريرة... مرفوعاً به.
قلت: وهذا إسناد واه جدّاً؛ عبد الله هذا متهم؛ قال ابن القيم في "التهذيب ":
" قلت: قال أحمد والبخاري: متروك ".
قلت: فلا تغتر إذاً بسكوت ابن القيم عليه في "زاد المعاد"؛ بل واستدلاله به
على أن حديث الباب مقلوب!
وهذا من غرائبه وأخطائه العديدة في كلامه على الحديث وحديث وائل الذي
أوردناه في الكتاب الآخر، وقد توليت بيانها في "التعليقات الجياد".
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی آدمی سجدہ کرنے لگے تو اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے اور اونٹ کی طرح نہ بیٹھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
باب کی تیسری روایت دوسری روایت کی تفصیل ہے اور یہ پہلی روایت کے بالکل الٹ ہے۔ پہلی روایت اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہے جیسا کہ محقق کتاب نے بھی اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے، تاہم بعض نے اسے صحیح بھی کہا ہے، اس لیے ان کے نزدیک دونوں طرح جائز ہے کیونکہ ان کے خیال میں دونوں روایات صحیح ہیں۔ احناف وغیرہ نے حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دی ہے کیونکہ جو عضو زمین کے زیادہ قریب ہے، وہ پہلے لگنا چاہیے اور جو دور ہے، وہ بعد میں۔ اکثر محدثین نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دی ہے کیونکہ حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی روایت پر عمل کرنے سے اونٹ سے مشابہت ہوتی ہے اور اس مشابہت سے روکا گیا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ہاتھ پہلے رکھنے چاہئیں گھٹنے بعد میں کیونکہ یہ فطرت انسانیہ کے مطابق ہے۔ اللہ تعالی ٰنے انسان کو سہارے کے لیے ہاتھ دیے ہیں۔ جانور تو مجبور ہیں کہ ان کے پاس ہاتھ نہیں ہیں، لہٰذا وہ بغیر سہارے کے بیٹھتے اٹھتے ہیں بلکہ سب کام بغیر ہاتھوں کے کرتے ہیں: کھانا، پینا، مارنا وغیرہ۔ مگر انسان کے لیے ہاتھوں کا استعمال ضروری ہے ورنہ جانوروں سے مشابہت ہو جائے گی۔ حدیث میں اونٹ کا ذکر ہے۔ اونٹ بیٹھتے وقت پہلے گھٹنے زمین پر رکھتا ہے۔ اگر گھٹنے پہلے رکھے جائیں تو ہاتھوں کا سہارا نہ ہونے کی وجہ سے گھٹنے اونٹ کی طرح زمین پر ٹکیں گے۔ بوڑھوں کے لیے مشکل بھی ہے اور چوٹ لگنے یا گرنے کا خطرہ بھی، لہٰذا اٹھتے بیٹھتے وقت ہاتھوں کا سہارا چاہیے، یعنی بیٹھتے وقت پہلے ہاتھ رکھیں، پھر گھٹنے اور اٹھتے وقت پہلے گھٹنے اٹھائیں، پھر ہاتھ۔ یاد رہے! اونٹ (بلکہ سب جانوروں) کے گھٹنے اگلے پاؤں میں ہتے ہیں، شکلا بھی، فعلا بھی، اور پچھلی ٹانگیں انسانوں کے بازوؤں جیسی ہوتی ہیں۔ چونکہ اونٹ سیدھا گھٹنوں پر بیٹھتا ہے، اس لیے اس کا خاص ذکر کیا گیا ہے اور اس کی مشابہت سے روکا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اپنے گھٹنوں سے پہلے اپنا ہاتھ زمین پر رکھے، اور وہ اونٹ کے بیٹھنے کی طرح نہ بیٹھے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'Is there any one of you who kneel as a camel kneels when praying'"?