Sunan-nasai:
Description Of Wudu'
(Chapter: Washing The Feet With The Hands)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
113.
حضرت عبدالرحمٰن بن ابو قراد قیسی ؓ سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ کے پاس کچھ پانی لایا گیا تو آپ نے برتن سے اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انھیں ایک دفعہ دھویا، پھر اپنے چہرے اور دونوں بازوؤں کو ایک ایک دفعہ دھویا۔ اور اپنے دونوں پاؤں اپنے دونوں ہاتھوں سے دھوئے۔
تشریح:
(1) فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً صحیح قرار دیا ہے، حالانکہ اس کی سند میں عمارہ بن عثمان بن حنیف راوی مجہول ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ دلائل کی رو سے انھی کی رائے درست معلوم ہوتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (العلل لابن أبي حاتم: ۵۷/۱، والموسوعة الحدیثية، مسند الإمام أحمد: ۲۰۰/۳۸) (2) روایت میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے، اس کی بابت درست رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ دونوں ہاتھوں سے پاؤں دھونا جائز ہے کیونکہ اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے، البتہ مستحب اور اولیٰ یہی ہے کہ پاؤں کو بائیں ہاتھ سے دھویا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اچھا عمل دائیں ہاتھ سے یا دائیں طرف سے کیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ کوئی بھی کام بائیں طرف سے بائیں ہاتھ سے کیا کرتے تھے، نیز پاؤں کو دھونے سے مقصود عموماً میل کچیل دور کرنا ہے جسے بائیں ہاتھ ہی سے دور کرنا بہتر اور مستحب معلوم ہوتا ہے، البتہ دونوں ہاتھوں سے دھونا بھی جائز ہے۔ واللہ أعلم۔
حضرت عبدالرحمٰن بن ابو قراد قیسی ؓ سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ کے پاس کچھ پانی لایا گیا تو آپ نے برتن سے اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انھیں ایک دفعہ دھویا، پھر اپنے چہرے اور دونوں بازوؤں کو ایک ایک دفعہ دھویا۔ اور اپنے دونوں پاؤں اپنے دونوں ہاتھوں سے دھوئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً صحیح قرار دیا ہے، حالانکہ اس کی سند میں عمارہ بن عثمان بن حنیف راوی مجہول ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ دلائل کی رو سے انھی کی رائے درست معلوم ہوتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (العلل لابن أبي حاتم: ۵۷/۱، والموسوعة الحدیثية، مسند الإمام أحمد: ۲۰۰/۳۸) (2) روایت میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے، اس کی بابت درست رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ دونوں ہاتھوں سے پاؤں دھونا جائز ہے کیونکہ اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے، البتہ مستحب اور اولیٰ یہی ہے کہ پاؤں کو بائیں ہاتھ سے دھویا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اچھا عمل دائیں ہاتھ سے یا دائیں طرف سے کیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ کوئی بھی کام بائیں طرف سے بائیں ہاتھ سے کیا کرتے تھے، نیز پاؤں کو دھونے سے مقصود عموماً میل کچیل دور کرنا ہے جسے بائیں ہاتھ ہی سے دور کرنا بہتر اور مستحب معلوم ہوتا ہے، البتہ دونوں ہاتھوں سے دھونا بھی جائز ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمارہ کہتے ہیں: مجھ سے قیسی ؓ نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ کے پاس پانی لایا گیا تو آپ نے اسے برتن سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا ۱؎ اور انہیں ایک بار دھویا، پھر اپنے چہرے اور دونوں بازؤوں کو ایک ایک بار دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں پیروں کو دھویا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : حدیث میں «فَقَالَ عَلَى يَدَيْهِ» وارد ہے عرب قول کو مختلف افعال و اعمال کے لیے استعمال کرتے ہیں مثلاً «قال بيده» سے ”لیا“ «قال برجله» سے ”چلا“ اور «قالت له العينان» سے ”اشارہ کیا“ مراد لیتے ہیں، اسی طرح «قال على يديه من الإنائ» سے ”برتن سے پانی دونوں ہاتھوں پر انڈیلا“ مراد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Al-Qaisi narrated that he was with the Messenger of Allah (ﷺ) on a journey, and some water was brought to him. He poured some onto his hands from the vessel and washed them once, then he washed his face and each arm once, and he washed his feet with both hands. (Sahih)