Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: The place of prostration)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1140.
حضرت عطاء بن یزید بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید ؓ کے پاس بیٹھا تھا۔ ان میں سے ایک نے شفاعت والی حدیث سنائی اور دوسرا خاموش بیٹھا تھا۔ اس (صحابی) نے فرمایا: فرشتے آئیں گے اور سفارش کریں گے۔ تمام رسول ؑ بھی سفارش فرمائیں گے۔ پھر انھوں نے پل صراط کا ذکر کرکے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں سب سے پہلے گزروں گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان انصاف کرکے فارغ ہو جائے گا اور جنھیں آگ سے نکالنا چاہے گا، انھیں نکالنے لگے گا تو فرشتوں اور رسولوں کو سفارش کرنے کا حکم دے گا تو انھیں ان کے (سجدوں کے) نشانات سے پہچانا جائے گا کیونکہ آگ انسان کے ہر عضو کو جلا دے گی مگر سجدے والی جگہوں کو نہ جلا سکے گی، چنانچہ (جہنم سے نکال کر) ان پر آب حیات ڈالا جائے گا، تو وہ ایسے (خوب صورت) اگیں گے جیسے سیلابی کوڑا کرکٹ میں دانہ اگتا ہے۔“
تشریح:
(1) صراط یا عرف عام میں پل صراط، جہنم کے اوپر رکھا جائے گا جس پر سے سب لوگ گزریں گے حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام بھی، مگر اعلیٰ درجے کے لوگوں کو جہنم کا پتہ تک بھی نہیں چلے گا جبکہ گناہ گاروں کو وہ صراط اور اس کی رکاوٹیں روکیں گی، کھینچیں گی، زخمی کریں گی۔ کچھ تو زخمی ہوکر نجات پا جائیں گے اور جنت میں چلے جائیں گے، باقی جہنم میں گر جائیں گے۔ کفار و منافقین تو ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنے رہیں گے اور گناہ گار مومنین میلے سونے کی طرح آگ میں جلیں گے۔ جب گناہ اور ان کے اثرات جل جائیں گے اور نیکیاں باقی رہ جائیں گی تو انھیں نکال کر آب حیات میں، جو جنت سے لایا جائے گا، رکھا جائے گا۔ جب وہ جنتیوں جیسے خوب صورت ہو جائیں گے تو انھیں جنت میں لے جایا جائے گا جیسا کہ بھٹی میں سونے کے ساتھ ہوتا ہے۔ (2) سیلابی کوڑا کرکٹ میں روئیدگی کی قوت بہت زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا سیلاب ختم ہونے کے بعد اس کوڑا کرکٹ میں رہ جانے والے دانے بہترین اور بہت جلدی اور خوب صورت اگتے ہیں۔ اسی طرح جنت کا آب حیات آگ کے اثرات کو ختم کرکے انھیں چمکتے سونے کی طرح خوب صورت بنا دے گا تو پھر وہ جنت میں جائیں گے۔ (3) جس طرح آگ سارا میل کچیل کھا جاتی ہے، سونے کو نہیں کھاتی، بالکل اسی طرح جہنم کی آگ گناہ اور گناہ کے اثرات کھائے گی۔ نیکی، ایمان اور ان کے اثرات نہیں کھا سکے گی، لہٰذا اس میں کوئی عقلی اشکال نہیں۔ بخلاف اس کے کافر چونکہ سراپا گناہ ہیں، لہٰذا جہنم انھیں ایندھن کی طرح مکمل طور پر جلائے گی۔ گویا کافر جلانے کے لیے جہنم میں ڈالے جائیں گے جب کہ گناہ گار مومن صفائی کےلیے، لہٰذا دونوں اسی فرق سے پہچانے جائیں گے۔ (4) صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم ادب کے کمال درجے پر فائز تھے کہ جب ایک بات کرتا تو دوسرے خاموشی سے سنتے اگرچہ انھیں پہلے سے اس بات کا پتہ ہوتا۔ (5) رسولوں اور فرشتوں کے لیے شفاعت کا ثبوت۔ معتزلہ اور خوارج اس کا انکار کرتے ہیں۔ حدیث ان کے موقف کی تردید کرتی ہے۔ (6) پل صراط کا ثبوت، نیز یہ کہ مومنین بھی اس پر سے گزریں گے۔ (7) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کی فضیلت کا بیان کہ وہ تمام امتوں سے پہلے پل صراط سے گزرے گی۔ (8) بعض مومن اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لیے جہنم میں ڈالے جائیں گے، بعد میں اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے گا اور انھیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا۔ (9) مومن لوگوں کے عذاب کی کیفیت کفار سے مختلف ہوگی کہ ان کے سارے جسم کو آگ جلائے گی جبکہ مومن کے اعضائے سجود آگ سے محفوظ رہیں گے اور یہی ان کی پہچان کی نشانی ہوگی۔ سفارشی انھیں اسی نشانی سے پہچان کر آگ سے نکالیں گے۔
حضرت عطاء بن یزید بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید ؓ کے پاس بیٹھا تھا۔ ان میں سے ایک نے شفاعت والی حدیث سنائی اور دوسرا خاموش بیٹھا تھا۔ اس (صحابی) نے فرمایا: فرشتے آئیں گے اور سفارش کریں گے۔ تمام رسول ؑ بھی سفارش فرمائیں گے۔ پھر انھوں نے پل صراط کا ذکر کرکے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں سب سے پہلے گزروں گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان انصاف کرکے فارغ ہو جائے گا اور جنھیں آگ سے نکالنا چاہے گا، انھیں نکالنے لگے گا تو فرشتوں اور رسولوں کو سفارش کرنے کا حکم دے گا تو انھیں ان کے (سجدوں کے) نشانات سے پہچانا جائے گا کیونکہ آگ انسان کے ہر عضو کو جلا دے گی مگر سجدے والی جگہوں کو نہ جلا سکے گی، چنانچہ (جہنم سے نکال کر) ان پر آب حیات ڈالا جائے گا، تو وہ ایسے (خوب صورت) اگیں گے جیسے سیلابی کوڑا کرکٹ میں دانہ اگتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) صراط یا عرف عام میں پل صراط، جہنم کے اوپر رکھا جائے گا جس پر سے سب لوگ گزریں گے حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام بھی، مگر اعلیٰ درجے کے لوگوں کو جہنم کا پتہ تک بھی نہیں چلے گا جبکہ گناہ گاروں کو وہ صراط اور اس کی رکاوٹیں روکیں گی، کھینچیں گی، زخمی کریں گی۔ کچھ تو زخمی ہوکر نجات پا جائیں گے اور جنت میں چلے جائیں گے، باقی جہنم میں گر جائیں گے۔ کفار و منافقین تو ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنے رہیں گے اور گناہ گار مومنین میلے سونے کی طرح آگ میں جلیں گے۔ جب گناہ اور ان کے اثرات جل جائیں گے اور نیکیاں باقی رہ جائیں گی تو انھیں نکال کر آب حیات میں، جو جنت سے لایا جائے گا، رکھا جائے گا۔ جب وہ جنتیوں جیسے خوب صورت ہو جائیں گے تو انھیں جنت میں لے جایا جائے گا جیسا کہ بھٹی میں سونے کے ساتھ ہوتا ہے۔ (2) سیلابی کوڑا کرکٹ میں روئیدگی کی قوت بہت زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا سیلاب ختم ہونے کے بعد اس کوڑا کرکٹ میں رہ جانے والے دانے بہترین اور بہت جلدی اور خوب صورت اگتے ہیں۔ اسی طرح جنت کا آب حیات آگ کے اثرات کو ختم کرکے انھیں چمکتے سونے کی طرح خوب صورت بنا دے گا تو پھر وہ جنت میں جائیں گے۔ (3) جس طرح آگ سارا میل کچیل کھا جاتی ہے، سونے کو نہیں کھاتی، بالکل اسی طرح جہنم کی آگ گناہ اور گناہ کے اثرات کھائے گی۔ نیکی، ایمان اور ان کے اثرات نہیں کھا سکے گی، لہٰذا اس میں کوئی عقلی اشکال نہیں۔ بخلاف اس کے کافر چونکہ سراپا گناہ ہیں، لہٰذا جہنم انھیں ایندھن کی طرح مکمل طور پر جلائے گی۔ گویا کافر جلانے کے لیے جہنم میں ڈالے جائیں گے جب کہ گناہ گار مومن صفائی کےلیے، لہٰذا دونوں اسی فرق سے پہچانے جائیں گے۔ (4) صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم ادب کے کمال درجے پر فائز تھے کہ جب ایک بات کرتا تو دوسرے خاموشی سے سنتے اگرچہ انھیں پہلے سے اس بات کا پتہ ہوتا۔ (5) رسولوں اور فرشتوں کے لیے شفاعت کا ثبوت۔ معتزلہ اور خوارج اس کا انکار کرتے ہیں۔ حدیث ان کے موقف کی تردید کرتی ہے۔ (6) پل صراط کا ثبوت، نیز یہ کہ مومنین بھی اس پر سے گزریں گے۔ (7) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کی فضیلت کا بیان کہ وہ تمام امتوں سے پہلے پل صراط سے گزرے گی۔ (8) بعض مومن اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لیے جہنم میں ڈالے جائیں گے، بعد میں اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے گا اور انھیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا۔ (9) مومن لوگوں کے عذاب کی کیفیت کفار سے مختلف ہوگی کہ ان کے سارے جسم کو آگ جلائے گی جبکہ مومن کے اعضائے سجود آگ سے محفوظ رہیں گے اور یہی ان کی پہچان کی نشانی ہوگی۔ سفارشی انھیں اسی نشانی سے پہچان کر آگ سے نکالیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عطاء بن یزید کہتے ہیں کہ میں ابوہریرہ ؓ اور ابوسعید کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تو ان دونوں میں سے ایک نے شفاعت کی حدیث بیان کی، اور دوسرے خاموش رہے، انہوں نے کہا: فرشتے آئیں گے، شفاعت کریں گے، اور انبیاء و رسل بھی شفاعت کریں گے، نیز انہوں نے پل صراط کا ذکر کیا، اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”پل صراط پار کرنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا“ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے فیصلوں سے فارغ ہو گا، اور جہنم سے جسے نکالنا چاہے گا نکال لے گا، تو اللہ فرشتوں کو اور رسولوں کو حکم دے گا کہ وہ شفاعت کریں، قابل شفاعت لوگ اپنی نشانیوں سے پہچان لیئے جائیں گے، آگ ابن آدم کی ہر چیز کھا جائے گی سوائے سجدہ کی جگہ کے، پھر ان پر چشمہ حیات کا پانی انڈیلا جائے گا، تو وہ اگنے لگیں گے جیسے سیلاب کے خش و خاشاک میں دانہ اگتا ہے۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : جس طرح سیلاب کے کوڑا کرکٹ میں دانہ اُگ کر جلد ہی ترو تازہ ہو جاتا ہے، اسی طرح یہ لوگ بھی اس پانی کی برکت سے بھلے چنگے ہو جائیں گے، اور آگ کے نشانات مٹ جائیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ma'dan bin Talha Al-Ya'muri said: "I met Thawban, the freed slave of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: "Tell me of an action that will benefit me or gain me admittance to Paradise.' He remained silent for a while, then he turned to me and said: 'You should prostrate, because I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: "There is no one who prostrated once to Allah, the Mighty and Sublime, except that Allah will raise him one degree in status thereby, and erase one sin thereby". Ma'dan said: "Then I met Abu Ad-Darda' and asked him the same question I had asked Thawban". He said to me: "You should prostrate, for I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: "There is no one who prostrates once to Allah (SWT), but Allah (SWT) will raise him one degree thereby and erase one sin thereby".