Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: Is it permissible to make one prostration longer than the other?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1141.
حضرت شداد ؓ بیان کرتے ہیں کہ مغرب یا عشاء کی نماز کے لیے اللہ کے رسول ﷺ تشریف لائے تو آپ نے حضرت حسن یا حسین ؓ کو اٹھا رکھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ (نماز پڑھانے کے لیے) آگے بڑھے اور بچے کو نیچے بٹھا دیا۔ پھر نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہی اور نماز شروع کر دی۔ نماز کے دوران میں آپ نے ایک سجدہ بہت لمبا کر دیا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو بچہ رسول اللہ ﷺ کی پشت پر بیٹھا تھا اور آپ سجدے میں تھے۔ میں دوبارہ سجدے میں چلا گیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے نماز پوری فرمائی تو لوگوں نے گزارش کی: اے اللہ کے رسول! آپ نے نماز کے دوران میں ایک سجدہ اس قدر لمبا کیا کہ ہم نے سمجھا کوئی حادثہ ہوگیا ہے یا آپ کو وحی آنے لگی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار ہوگیا تو میں نے پسند نہ کیا کہ اسے جلدی میں ڈالوں (فوراً اتار دوں) حتیٰ کہ وہ اپنا دل خوش کرلے۔“
تشریح:
(1) ”حادثہ“ مرض یا وفات سے کنایہ ہے، تبھی تو صحابی کو تشویش ہوئی اور سر اٹھا کر دیکھا۔ (2) بلاوجہ سجدے کے درمیان سر اٹھانا منع ہے مگر کوئی عذر ہو، مثلاً: پیشانی کے نیچے کوئی تکلیف دہ چیز آگئی ہو یا سر میں شدید درد محسوس ہو یا امام کی حالت دیکھنا مقصود ہو تو ضرورت کے مطابق سر اٹھایا جا سکتا ہے۔ عذر ختم ہونے پر دوبارہ سجدے میں چلا جائے۔ یہ دو سجدے نہیں بنیں گے، ایک ہی رہے گا کیونکہ نیت معتبر ہے۔ (3) بچوں کی خوشی کا اس قدر لحاظ رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے در یتیم ہی سے ہوسکتا ہے۔ یقیناً ایسا فعل دگنے ثواب کا حامل ہے کہ عبادت میں بھی اضافہ ہوا اور اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی مخلوق کی دل جوئی بھی ہوئی۔ (4) قرابت کے اعتبار سے نواسے کو بیٹا کہنا درست ہے اگرچہ وہ وراثت کے اعتبار سے بیٹے کی طرح نہیں ہوتا۔
حضرت شداد ؓ بیان کرتے ہیں کہ مغرب یا عشاء کی نماز کے لیے اللہ کے رسول ﷺ تشریف لائے تو آپ نے حضرت حسن یا حسین ؓ کو اٹھا رکھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ (نماز پڑھانے کے لیے) آگے بڑھے اور بچے کو نیچے بٹھا دیا۔ پھر نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہی اور نماز شروع کر دی۔ نماز کے دوران میں آپ نے ایک سجدہ بہت لمبا کر دیا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو بچہ رسول اللہ ﷺ کی پشت پر بیٹھا تھا اور آپ سجدے میں تھے۔ میں دوبارہ سجدے میں چلا گیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے نماز پوری فرمائی تو لوگوں نے گزارش کی: اے اللہ کے رسول! آپ نے نماز کے دوران میں ایک سجدہ اس قدر لمبا کیا کہ ہم نے سمجھا کوئی حادثہ ہوگیا ہے یا آپ کو وحی آنے لگی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار ہوگیا تو میں نے پسند نہ کیا کہ اسے جلدی میں ڈالوں (فوراً اتار دوں) حتیٰ کہ وہ اپنا دل خوش کرلے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”حادثہ“ مرض یا وفات سے کنایہ ہے، تبھی تو صحابی کو تشویش ہوئی اور سر اٹھا کر دیکھا۔ (2) بلاوجہ سجدے کے درمیان سر اٹھانا منع ہے مگر کوئی عذر ہو، مثلاً: پیشانی کے نیچے کوئی تکلیف دہ چیز آگئی ہو یا سر میں شدید درد محسوس ہو یا امام کی حالت دیکھنا مقصود ہو تو ضرورت کے مطابق سر اٹھایا جا سکتا ہے۔ عذر ختم ہونے پر دوبارہ سجدے میں چلا جائے۔ یہ دو سجدے نہیں بنیں گے، ایک ہی رہے گا کیونکہ نیت معتبر ہے۔ (3) بچوں کی خوشی کا اس قدر لحاظ رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے در یتیم ہی سے ہوسکتا ہے۔ یقیناً ایسا فعل دگنے ثواب کا حامل ہے کہ عبادت میں بھی اضافہ ہوا اور اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی مخلوق کی دل جوئی بھی ہوئی۔ (4) قرابت کے اعتبار سے نواسے کو بیٹا کہنا درست ہے اگرچہ وہ وراثت کے اعتبار سے بیٹے کی طرح نہیں ہوتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
شداد ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مغرب اور عشاء کی دونوں نمازوں میں سے کسی ایک نماز کے لیے نکلے، اور حسن یا حسین کو اٹھائے ہوئے تھے، جب آپ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو انہیں (زمین پر) بٹھا دیا، پھر آپ نے نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہی، اور نماز شروع کر دی، اور اپنی نماز کے دوران آپ نے ایک سجدہ لمبا کر دیا، تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بچہ رسول اللہ ﷺ کی پیٹھ پر ہے، اور آپ سجدے میں ہیں، پھر میں اپنے سجدے کی طرف دوبارہ پلٹ گیا، جب رسول اللہ ﷺ نے نماز پوری کر لی تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے نماز کے درمیان ایک سجدہ اتنا لمبا کر دیا کہ ہم نے سمجھا کوئی معاملہ پیش آ گیا ہے، یا آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان میں سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی، البتہ میرے بیٹے نے مجھے سواری بنا لی تھی تو مجھے ناگوار لگا کہ میں جلدی کروں یہاں تک کہ وہ اپنی خواہش پوری کر لے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Ata bin Yazid said: "I was sitting with Abu Hurairah and Abu Sa'eed. One of them narrated the Hadith about intercession and the other was listening. He said: 'Then the angels will come and intercede, and the messengers will intercede.' And he mentioned the Sirat, and said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'I will be the first one to cross it, and when Allah has finished passing judgment among His creation, and has brought forth from the Fire those whom He wants to bring forth, Allah will command the angels and the messengers to intercede, and they will be recognized by their signs, for the Fire will consume all of the son of Adam apart from the place of prostration. Then the water of life will be poured on them, and they will grow like seeds on the banks of a rainwater stream".