Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: Not reciting the first tashahhud)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1178.
حضرت مالک ابن بحینہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے (ایک دفعہ) نماز پڑھی تو دو رکعتوں کے بعد (بھول کر) کھڑے ہوگئے۔ لوگوں نے سبحان اللہ کہا مگر آپ جاری رہے (دوبارہ نہ بیٹھے) پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو دو سجدے کیے۔ پھر سلام پھیرا۔
تشریح:
(1) اس واقعے سے جمہور علماء نے استدلال کیا ہے کہ پہلا تشہد فرض نہیں۔ اگر فرض ہوتا تو صحابہ کے توجہ دلانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ آتے مگر آپ کا آگے جاری رہنا اور آخر میں سجدۂ سہو کرنا دلیل ہے کہ یہ فرض نہیں، جبکہ بعض علمائے محققین کے نزدیک پہلا تشہد بھی واجب ہے۔ ہاں اگر بھول کر رہ جائے تو اس واجب کی سجودِ سہو سے تلافی ہوسکتی ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے ظاہر ہوتا ہے، نیز سنن ابوداود میں اس کا حکم منقول ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مسیئی الصلاۃ“ کو فرمایا تھا: [جلَستَفيوَسَطِ الصَّلاةِ فاطمَئنَّ وافتَرِشْ فَخِذَكَ اليُسرى، ثمَّ تَشهَّدْ……]”جب تم نماز کے دوران میں بیٹھو تو اطمینان سے بیٹھو اور اپنی بائیں ران بچھا لو، پھر تشہد پڑھو……“(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: ۸۶۰) اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ثم إذا قمتَ فمثلُ ذلكَ حتىتفرغَمن صلاتِك]”پھر جب کھڑے ہو تو پہلے کی طرح کرو حتیٰ کہ اپنی نماز سے فارغ ہو جاؤ۔“ ائمہ میں سے امام لیث، اسحاق بن راہویہ، مشہور قول کے مطابق امام احمد بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے، اور احناف سے بھی وجوب کی ایک روایت ملتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۳۱۰/۲، تحت حدیث: ۸۲۹، و ذخیرة العقبیٰ، شرح سنن النسائي: ۱۴۴،۱۴۳/۱۱) (2) اگر کوئی رکن رہ جائے، مثلاً: رکوع تو واپس لوٹنا ضروری ہے یا آخر میں پوری رکعت دہرانی پڑے گی۔ البتہ یہ اس وقت ہے جب بھول کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر کوئی بھول کر سیدھا کھڑا ہو جائے اور اسے یاد آ جائے تو واپس نہ لوٹے بلکہ آخر میں سہو کے دو سجدے کرلے، پھر سلام پھیرے اور اگر ابھی تھوڑا سا اٹھا تھا، یعنی بیٹھنے کے قریب تھا، ابھی ٹانگیں سیدھی نہیں ہوئی تھیں کہ یاد آگیا تو بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے۔ سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں، البتہ اگر آخری تشہد بھول کر کھڑا ہو جائے تو جب بھی یاد آئے، واپس لوٹے اور آخر میں سجدۂ سہو کرے۔ (3) اس میں احناف کا رد ہے جو کہ ایک سلام کے بعد سجدۂ سہو کرتے ہیں۔ (4) مقتدی بھی امام کے ساتھ سجدۂ سہو کرے گا اگرچہ مقتدی کو سہو نہ ہوا ہو، صرف امام ہی کو ہوا ہو۔ (5) سجدۂ سہو کے بعد تشہد نہیں۔ (سجود سہو کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب السہو کا ابتدائیہ) (6) بتقاضائے بشریت انبیاء علیہم السلام کوبھی سہو اور نسیان لاحق ہوا ہے لیکن وحی کے پہنچانے میں قطعا نہیں۔
حضرت مالک ابن بحینہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے (ایک دفعہ) نماز پڑھی تو دو رکعتوں کے بعد (بھول کر) کھڑے ہوگئے۔ لوگوں نے سبحان اللہ کہا مگر آپ جاری رہے (دوبارہ نہ بیٹھے) پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو دو سجدے کیے۔ پھر سلام پھیرا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس واقعے سے جمہور علماء نے استدلال کیا ہے کہ پہلا تشہد فرض نہیں۔ اگر فرض ہوتا تو صحابہ کے توجہ دلانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ آتے مگر آپ کا آگے جاری رہنا اور آخر میں سجدۂ سہو کرنا دلیل ہے کہ یہ فرض نہیں، جبکہ بعض علمائے محققین کے نزدیک پہلا تشہد بھی واجب ہے۔ ہاں اگر بھول کر رہ جائے تو اس واجب کی سجودِ سہو سے تلافی ہوسکتی ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے ظاہر ہوتا ہے، نیز سنن ابوداود میں اس کا حکم منقول ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مسیئی الصلاۃ“ کو فرمایا تھا: [جلَستَفيوَسَطِ الصَّلاةِ فاطمَئنَّ وافتَرِشْ فَخِذَكَ اليُسرى، ثمَّ تَشهَّدْ……]”جب تم نماز کے دوران میں بیٹھو تو اطمینان سے بیٹھو اور اپنی بائیں ران بچھا لو، پھر تشہد پڑھو……“(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: ۸۶۰) اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ثم إذا قمتَ فمثلُ ذلكَ حتىتفرغَمن صلاتِك]”پھر جب کھڑے ہو تو پہلے کی طرح کرو حتیٰ کہ اپنی نماز سے فارغ ہو جاؤ۔“ ائمہ میں سے امام لیث، اسحاق بن راہویہ، مشہور قول کے مطابق امام احمد بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے، اور احناف سے بھی وجوب کی ایک روایت ملتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۳۱۰/۲، تحت حدیث: ۸۲۹، و ذخیرة العقبیٰ، شرح سنن النسائي: ۱۴۴،۱۴۳/۱۱) (2) اگر کوئی رکن رہ جائے، مثلاً: رکوع تو واپس لوٹنا ضروری ہے یا آخر میں پوری رکعت دہرانی پڑے گی۔ البتہ یہ اس وقت ہے جب بھول کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر کوئی بھول کر سیدھا کھڑا ہو جائے اور اسے یاد آ جائے تو واپس نہ لوٹے بلکہ آخر میں سہو کے دو سجدے کرلے، پھر سلام پھیرے اور اگر ابھی تھوڑا سا اٹھا تھا، یعنی بیٹھنے کے قریب تھا، ابھی ٹانگیں سیدھی نہیں ہوئی تھیں کہ یاد آگیا تو بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے۔ سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں، البتہ اگر آخری تشہد بھول کر کھڑا ہو جائے تو جب بھی یاد آئے، واپس لوٹے اور آخر میں سجدۂ سہو کرے۔ (3) اس میں احناف کا رد ہے جو کہ ایک سلام کے بعد سجدۂ سہو کرتے ہیں۔ (4) مقتدی بھی امام کے ساتھ سجدۂ سہو کرے گا اگرچہ مقتدی کو سہو نہ ہوا ہو، صرف امام ہی کو ہوا ہو۔ (5) سجدۂ سہو کے بعد تشہد نہیں۔ (سجود سہو کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب السہو کا ابتدائیہ) (6) بتقاضائے بشریت انبیاء علیہم السلام کوبھی سہو اور نسیان لاحق ہوا ہے لیکن وحی کے پہنچانے میں قطعا نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن بحینہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز پڑھائی، تو دوسری رکعت میں کھڑے ہو گئے، لوگوں نے سبحان اللہ کہا، لیکن آپ نے نماز جاری رکھی، اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو دو سجدہ کیا، پھر سلام پھیرا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn Buhainah that: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) prayed and stood up following the first two rak'ahs, and they said (SubhanAllah). He carried on, then when he finished his prayer he performed two prostrations, then he said the Salam.