Sunan-nasai:
Description Of Wudu'
(Chapter: Description Of Wudu' For Who Has Not Committed Hadath)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
130.
حضرت نزال بن سبرہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی ؓ کو دیکھا کہ آپ نے ظہر کی نماز پڑھی، پھر لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بیٹھ گئے۔ جب عصر کا وقت ہوا تو آپ کے پاس پانی کا ایک تھال لایا گیا۔ آپ نے اس سے ایک چلو پانی لیا اور اپنے چہرے، بازوؤں، سر اور پاؤں پر مل لیا، پھر بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پی لیا اور فرمایا کہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں جبکہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے اور یہ اس شخص کا وضو ہے جس کا پہلا وضو نہیں ٹوٹا۔
تشریح:
(1) جس شخص کا وضو قائم ہے، اسے نیا وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ مسئلہ متفق علیہ ہے مگر ثواب یا صفائی کی خاطر کوئی وضو پر وضو کرنا چاہے تو کرسکتا ہے کیونکہ وضو بذاتہ گناہوں کے کفارے کا سبب بنتا ہے اور اس سے انسان کی بخشش ہوتی ہے اور یہی درست رائے ہے۔ اس بارے میں بہت زیادہ احادیث مروی ہیں۔ (2) جس شخص کا پہلا وضو قائم ہے، اسے مکمل وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہلکا سا وضو بھی کرلے تو کوئی حرج نہیں۔ دھونے اور پانی بہانے کی بجائے گیلا ہاتھ لگانا بھی کافی ہے اور ہر جگہ ہاتھ پہنچانا بھی ضروری نہیں۔ (3) اس حدیث سے کھڑے ہوکر پانی پینے کا جواز ثابت ہوتا ہے، اگرچہ افضل یہی ہے کہ بیٹھ کر پیا جائے۔ مزید تفصیل کے لیے حدیث: ۹۶ کے فوائد دیکھیے۔
حضرت نزال بن سبرہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی ؓ کو دیکھا کہ آپ نے ظہر کی نماز پڑھی، پھر لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بیٹھ گئے۔ جب عصر کا وقت ہوا تو آپ کے پاس پانی کا ایک تھال لایا گیا۔ آپ نے اس سے ایک چلو پانی لیا اور اپنے چہرے، بازوؤں، سر اور پاؤں پر مل لیا، پھر بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پی لیا اور فرمایا کہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں جبکہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے اور یہ اس شخص کا وضو ہے جس کا پہلا وضو نہیں ٹوٹا۔
حدیث حاشیہ:
(1) جس شخص کا وضو قائم ہے، اسے نیا وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ مسئلہ متفق علیہ ہے مگر ثواب یا صفائی کی خاطر کوئی وضو پر وضو کرنا چاہے تو کرسکتا ہے کیونکہ وضو بذاتہ گناہوں کے کفارے کا سبب بنتا ہے اور اس سے انسان کی بخشش ہوتی ہے اور یہی درست رائے ہے۔ اس بارے میں بہت زیادہ احادیث مروی ہیں۔ (2) جس شخص کا پہلا وضو قائم ہے، اسے مکمل وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہلکا سا وضو بھی کرلے تو کوئی حرج نہیں۔ دھونے اور پانی بہانے کی بجائے گیلا ہاتھ لگانا بھی کافی ہے اور ہر جگہ ہاتھ پہنچانا بھی ضروری نہیں۔ (3) اس حدیث سے کھڑے ہوکر پانی پینے کا جواز ثابت ہوتا ہے، اگرچہ افضل یہی ہے کہ بیٹھ کر پیا جائے۔ مزید تفصیل کے لیے حدیث: ۹۶ کے فوائد دیکھیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالملک بن میسرہ کہتے ہیں کہ میں نے نزال بن سبرہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے علی ؓ کو دیکھا کہ آپ نے ظہر کی نماز پڑھی، پھر لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے یعنی ان کے مقدمات نپٹانے کے لیے بیٹھے، جب عصر کا وقت ہوا تو پانی کا ایک برتن لایا گیا، آپ نے اس سے ایک ہتھیلی میں پانی لیا، پھر اسے اپنے چہرہ، اپنے دونوں بازو، سر اور دونوں پیروں پر ملا ۱؎، پھر بچا ہوا پانی لیا اور کھڑے ہو کر پیا، اور کہنے لگے کہ کچھ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے، اور یہ ان لوگوں کا وضو ہے جن کا وضو نہیں ٹوٹا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی باوضو ہو اور نماز کا وقت آ جائے، اور وہ ثواب کے لیے تازہ وضو کرنا چاہے تو تھوڑا سا پانی لے کر سارے اعضاء پر مل لے تو کافی ہو گا، پورا وضو کرنا اور ہر عضو کے لیے الگ الگ پانی لینا ضروری نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
An-Nazzal bin Sabrah said: “I saw ‘Ali (RA) praying Zuhr, then he sat to tend to the people’s needs, and when the time for ‘Asr came, a vessel of water was brought to him. He took a handful of it and wiped his face, forearms, head and feet with it, then he took what was left and drank standing up. He said: ‘People dislike this, but I saw the Messenger of Allah (ﷺ) doing it. This is the Wudu’ of one who has not committed Hadath.” (Sahih)