Sunan-nasai:
Description Of Wudu'
(Chapter: The Command To Do Wudu’ Properly)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
141.
عبداللہ بن عبید اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے تین چیزوں کے سوا ہمیں لوگوں سے الگ کوئی خصوصی حکم نہیں دیا۔ آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم وضو مکمل اور اچھی طرح کریں، صدقہ نہ کھائیں اور گدھوں کی گھوڑیوں سے جفتی نہ کرائیں۔
تشریح:
(1) صدقہ و زکاۃ کی حرمت کے علاوہ باقی مذکورہ چیزیں اہل بیت سے خاص نہیں، صرف صدقہ و زکاۃ نہ کھانے میں انھیں انفرادیت ہے۔ باقی مذکورہ مسائل محض تاکید مزید کے معنی میں ہیں۔ (2) ’’گدھوں کی گھوڑیوں سے جفتی نہ کرائیں۔‘‘ کیونکہ گھوڑا نسل کے اعتبار سے اعلیٰ اور مبارک جانور ہے، اس لیے گھوڑی سے خچر حاصل کرنا اعلیٰ اور عمدہ پر ادنیٰ اور کم تر کو ترجیح دینا ہے، اس لیے پسندیدہ نہیں ہے، تاہم خچر خریدنا اور اس پر سواری کرنا ممنوع نہیں ہے کیونکہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خچر کا تحفہ ملا تو آپ نے قبول فرمایا اور بارہا اس پر سواری بھی کی، نیز اللہ تعالیٰ نے سورۂ نحل آیت: ۸ میں خچروں کی سواری اور ان کے باعث زینت ہونے کی اپنی نعمت شمار کیا ہے۔ بعض علماء اس کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے بطور سواری استعمال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں ایک درجہ کراہت تو ہے مگر اس کی افزائش کا مروجہ طریقہ جائز ہے اور حدیث میں نہی حرمت کے لیے نہیں بلکہ تنزیہ کے لیے ہے، لیکن دلائل کی رو سے بہتر اور راجح موقف یہ ہے کہ اس طریقے سے اس کا حصول محل نظر ہے، البتہ خچر سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، نیز نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ﴿إنما یفعل ذلک الذین لایعلمون﴾(مسند احمد: ۹۸/۱، و سنن النسائي، الخیل، حدیث: ۳۶۰۱) ’’یہ کام بے علم لوگ کرتے ہیں۔‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ باشعور اور اچھے لوگ یہ کام نہیں کرتے۔ گویا اس میں ایک لحاظ سے سرزنش کا پہلو ہے۔ بنا بریں گدھے اور گھوڑی کی جفتی خود کرانا ممنوع ہے۔ ان میں یہ عمل ازخود ہو جائے یا کوئی جاہل لوگ کریں تو ہمارے لیے ان سے پیدا ہونے والے خچر سے فائدہ اٹھانا بالکل جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (معالم السنن للخطابي: ۲۱/۲، و شرح معاني الآثار للطحاوي: ۲۷۳/۳، و ذخیرة العقبی، شرح سنن النسائي: ۲۴۵-۲۳۸/۳)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرجه الترمذي مختصراً؛ وقال: " حديث
حسن صحيح ")
إسناده: حدثنا مسدد ثنا: عبد الوارث عن موسى بن سالم: ثنا عبد الله بن
عبيد الله.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال البخاري؛ عْير موسى بن سالم
- وهو أبو جهضم مولى آل العباس-، وهو ثقة اتفاقاً.
والحديث أخرجه النسائي (2/121) ، والترمذي (3/31) ، وأحمد (1/249)
من طرق أخرى عن موسى بن سالم... به؛ وليس عند الترمذي ما قبل: وكان
عبد اً...، وقال:
" حديث حسن صحيح ".
عبداللہ بن عبید اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے تین چیزوں کے سوا ہمیں لوگوں سے الگ کوئی خصوصی حکم نہیں دیا۔ آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم وضو مکمل اور اچھی طرح کریں، صدقہ نہ کھائیں اور گدھوں کی گھوڑیوں سے جفتی نہ کرائیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) صدقہ و زکاۃ کی حرمت کے علاوہ باقی مذکورہ چیزیں اہل بیت سے خاص نہیں، صرف صدقہ و زکاۃ نہ کھانے میں انھیں انفرادیت ہے۔ باقی مذکورہ مسائل محض تاکید مزید کے معنی میں ہیں۔ (2) ’’گدھوں کی گھوڑیوں سے جفتی نہ کرائیں۔‘‘ کیونکہ گھوڑا نسل کے اعتبار سے اعلیٰ اور مبارک جانور ہے، اس لیے گھوڑی سے خچر حاصل کرنا اعلیٰ اور عمدہ پر ادنیٰ اور کم تر کو ترجیح دینا ہے، اس لیے پسندیدہ نہیں ہے، تاہم خچر خریدنا اور اس پر سواری کرنا ممنوع نہیں ہے کیونکہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خچر کا تحفہ ملا تو آپ نے قبول فرمایا اور بارہا اس پر سواری بھی کی، نیز اللہ تعالیٰ نے سورۂ نحل آیت: ۸ میں خچروں کی سواری اور ان کے باعث زینت ہونے کی اپنی نعمت شمار کیا ہے۔ بعض علماء اس کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے بطور سواری استعمال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں ایک درجہ کراہت تو ہے مگر اس کی افزائش کا مروجہ طریقہ جائز ہے اور حدیث میں نہی حرمت کے لیے نہیں بلکہ تنزیہ کے لیے ہے، لیکن دلائل کی رو سے بہتر اور راجح موقف یہ ہے کہ اس طریقے سے اس کا حصول محل نظر ہے، البتہ خچر سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، نیز نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ﴿إنما یفعل ذلک الذین لایعلمون﴾(مسند احمد: ۹۸/۱، و سنن النسائي، الخیل، حدیث: ۳۶۰۱) ’’یہ کام بے علم لوگ کرتے ہیں۔‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ باشعور اور اچھے لوگ یہ کام نہیں کرتے۔ گویا اس میں ایک لحاظ سے سرزنش کا پہلو ہے۔ بنا بریں گدھے اور گھوڑی کی جفتی خود کرانا ممنوع ہے۔ ان میں یہ عمل ازخود ہو جائے یا کوئی جاہل لوگ کریں تو ہمارے لیے ان سے پیدا ہونے والے خچر سے فائدہ اٹھانا بالکل جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (معالم السنن للخطابي: ۲۱/۲، و شرح معاني الآثار للطحاوي: ۲۷۳/۳، و ذخیرة العقبی، شرح سنن النسائي: ۲۴۵-۲۳۸/۳)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عبیداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ہم لوگ عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس بیٹھے تھے، تو انہوں نے کہا: قسم ہے اللہ کی! رسول اللہ ﷺ نے دوسرے لوگوں کی بہ نسبت ہمیں (یعنی بنی ہاشم کو) کسی چیز کے ساتھ خاص نہیں کیا سوائے تین چیزوں کے ۱؎ (پہلی یہ کہ) آپ نے حکم دیا کہ ہم کامل وضو کریں، (دوسری یہ کہ) ہم صدقہ نہ کھائیں، اور (تیسری یہ کہ) ہم گدھوں کو گھوڑیوں پر نہ چڑھائیں۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی ان باتوں کی بنی ہاشم کو زیادہ تاکید فرمائی، ان میں سے پہلی بات تو عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے، اور دوسری بات بنی ہاشم اور بنی مطلب کے ساتھ خاص ہے، جب کہ تیسری بات یعنی گدھوں اور گھوڑیوں کا ملاپ عموماً مکروہ ہے کیونکہ اس سے گھوڑوں کی نسل کم ہو گی حالانکہ ان کی نسل بڑھانی چاہیئے کیونکہ گھوڑے آلات جہاد میں سے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abdullah bin ‘Ubaidullah bin ‘Abbas said: “We were sitting with ‘Abdullah bin ‘Abbas and he said: ‘By Allah, the Messenger of Allah (ﷺ) did not say specifically anything for us above the people, except for three things: He commanded us to do Wudu’ properly, not to consume charity, and not to mate donkeys with horses.” (Hasan)