کتاب: سفر میں نماز قصر کرنے کے متعلق احکام و مسائل
(
باب: منیٰ میں نماز( کیسے پڑھی جائے؟)
)
Sunan-nasai:
The Book of Shortening the Prayer When Traveling
(Chapter: Prayer in Mina)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1447.
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے منیٰ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں اور حضرت عثمان ؓ کے ساتھ بھی ان کی امارت کے ابتدائی زمانے میں دو رکعتیں ہی پڑھیں۔
تشریح:
”ابتدائی زمانے میں“ یعنی بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں پوری نماز شروع کر دی تھی، کیوں؟ اس کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں: ایک یہ کہ پوری پڑھنا بھی جائز ہے۔ لوگوں کو غلط فہمی ہونے لگی تھی کہ نماز ہر حال میں دو رکعت ہی ہے کیونکہ خلیفہ جب بھی آتا ہے، دو رکعت پڑھاتا ہے، ہمارے ائمہ خواہ مخواہ چار پڑھاتے ہیں۔ یہ غلط فہمی دور کرنے کے لیے نماز مکمل پڑھائی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ قصر صرف سفر کی حالت میں ہوتی ہے۔ جب آدمی کسی جگہ ٹھہر جائے اور اسے سفر کی مشکلات درپیش نہ ہوں تو قصر نہ کرے، خواہ تھوڑے دن ہی ٹھہرے۔ چونکہ منیٰ میں تین دن (یا چار دن) آرام و سکون سے رہائش ہوتی ہے، لہٰذا پوری نماز پڑھنی چاہیے۔ آپ نے مکہ مکرمہ میں شادی کرلی تھی۔ ان کے علاوہ اور بھی وجوہات بیان کی گئی ہیں لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان تمام کارد کرتے ہوئے لکھا ہے یہ وجوہات درست نہیں۔ بنابریں سنت یہی ہے کہ سفر میں دو رکعت نماز ادا کی جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ و خیر الھدي ھدي محمد صلی اللہ علیه وسلم۔ نیز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہا کا بھی اسی پر عمل تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا پوری نماز پڑھنا ان کا ذاتی اجتہاد تھا، وہ شاید اس لیے پڑھتے ہوں کہ سفر میں پوری نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۳۵۸-۳۵۴/۱۶)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه دون حديث
معاوية بن قرة. وهذا إسناد صحيح؛ فإن الأشياخ جمع ينجبر بعددهم
جهالتهم، مع احتمال أن يكونوا من الصحابة- وجهالتهم لا تضر-؛ فإن معاوية
ابن قرة تابعي) .
إسناده: حدثنا مسدد: أن أبا معاوية وحفص بن غياث حدثاه- وحديث أبي
معاوية أتم- عن الأعمش عن إبراهيم عن عبد الرحمن بن في يزيد.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير مسدد، فهو على شرط
البخاري وحده، وقد توبع كما يأتي بيانه.
والحديث أخرجه البيهقي (3/143- 144) من طريق المصنف.
وأخرجه البخاري (2/563- الخطيب) ، ومسلم (2/149) ، والنسائي
(1/212) : حدثنا قتيبة بن سعيد: حدثنا عبد الواحد عن الأعمش... به؛
ولفظ النسائي مختصر.
ثم أخرجه البخاري (3/400) ، ومسلم، والنسائي، والطحاوي (1/242) من
طرق أخرى عن الأعمش... به؛ وليس عندهم جميعاً رواية الأعمش عن معاوية
ابن قرة.
وقد أخرجه البيهقي (2/144) من طريق أبي نعيم عن الأعمش: ثنا معاوية
ابن قُرَّةَ- بواسط- عن أشياخ الحي قال:
صلى عثمان الظهر بمنى أربعاً، فبلغ ذلك عبد الله، فعاب عليه، ثم صلى
بأصحابه في رَحْلِهِ العصرَ أربعاً. فقيل (الأصل: فقلت) له: عِبْتَ على عثمان
وصليت أربعاً؟! قال: إني أكره الخلاف. وقال.
" وقد روي ذلك بإسناد موصول..." ، ثم ساقه من طريق يونس بن أبي
إسحاق عن أبي إسحاق عن عبد الرحمن بن يزيد قال:
كنا مع عبد الله بن مسعود بجَمْع، فلما دخل مسجد مِنى؛ سأل: كم صلى
أمير المؤمنين؟ قالوا: أربعاً. فصلى أربعاً. قال: فقلنا: ألم تحدِّثنا أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
صلى ركعتين، وأبا بكر صلى ركعتين؟! فقال. بلى، وأنا أحدثكموه الآن، ولكن
عثمان كان إماماً، فما أخالفه، والخلاف شَرٌ.
ورجال هذا ثقات؛ لولا أن أبا إسحاق- هو السَّبِيعِيُّ- مدلس مختلط.
أما حكمه على السند الذي قبله بأنه منقطع؛ فلجهالة الأشياخ، وهذا
اصطلاح خاص له! ولا يقدح ذلك في صحة الإسناد؛ لما ذكرته في الأعلى.
وفي الباب عن ابن عمر قال: صلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بمنى صلاة السافر، وأبو بكر
وعمر وعثمان ثماني سنين- أو قال: ست سنين-.
أخرجه مسلم (2/146) ،وأحمد (2/45) ... بلفظ: ست سنين من إمرته،
ثم صلى أربعاً.
وظاهر هذا الحديث وحديث الباب: أن عثمان رضي الله عنه كان يُتِم في منى
أيام الحج.
ولكني وجدت ما يدل على أنه كان يقصر فيها، وإن كان الإتمام منه قبل الحج
وبعد الفراغ منه، فقال ابن إسحاق: ثنا يحيى بن عَباد بن عبد الله بن الزبير عن
أبيه عَباد قال:
قدِمَ علينا معاوية حاجّا، قدمنا معه مكة. قال: فصلى بنا الظهر ركعتين، ثم
انصرف إلى دار الندوة. قال: وكان عثمان- حين أتم الصلاة- إذا قدم مكة؛ صلى
بها الظهر والعصر والعشاء الآخرة أربعاً، فإذا خرج إلى منى وعرفات قصر
الصلاة، فإذا فرغ من الحج وأقام بمنى؛ أتم الصلاة حتى يخرج من مكة...
الحديث.
أخرجه أحمد (4/94) ؛ وإسناده حسن.
فلعل قصره في منى قبل الفراغ من الحج كان بعد أن عاب ابن مسعود عليه
وغيره من الصحابة. والله أعلم.
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے منیٰ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں اور حضرت عثمان ؓ کے ساتھ بھی ان کی امارت کے ابتدائی زمانے میں دو رکعتیں ہی پڑھیں۔
حدیث حاشیہ:
”ابتدائی زمانے میں“ یعنی بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں پوری نماز شروع کر دی تھی، کیوں؟ اس کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں: ایک یہ کہ پوری پڑھنا بھی جائز ہے۔ لوگوں کو غلط فہمی ہونے لگی تھی کہ نماز ہر حال میں دو رکعت ہی ہے کیونکہ خلیفہ جب بھی آتا ہے، دو رکعت پڑھاتا ہے، ہمارے ائمہ خواہ مخواہ چار پڑھاتے ہیں۔ یہ غلط فہمی دور کرنے کے لیے نماز مکمل پڑھائی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ قصر صرف سفر کی حالت میں ہوتی ہے۔ جب آدمی کسی جگہ ٹھہر جائے اور اسے سفر کی مشکلات درپیش نہ ہوں تو قصر نہ کرے، خواہ تھوڑے دن ہی ٹھہرے۔ چونکہ منیٰ میں تین دن (یا چار دن) آرام و سکون سے رہائش ہوتی ہے، لہٰذا پوری نماز پڑھنی چاہیے۔ آپ نے مکہ مکرمہ میں شادی کرلی تھی۔ ان کے علاوہ اور بھی وجوہات بیان کی گئی ہیں لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان تمام کارد کرتے ہوئے لکھا ہے یہ وجوہات درست نہیں۔ بنابریں سنت یہی ہے کہ سفر میں دو رکعت نماز ادا کی جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ و خیر الھدي ھدي محمد صلی اللہ علیه وسلم۔ نیز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہا کا بھی اسی پر عمل تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا پوری نماز پڑھنا ان کا ذاتی اجتہاد تھا، وہ شاید اس لیے پڑھتے ہوں کہ سفر میں پوری نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۳۵۸-۳۵۴/۱۶)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اور ابوبکر اور عمر ؓ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت پڑھی، اور عثمان ؓ کے ساتھ بھی ان کی خلافت کے شروع میں دو ہی رکعت پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Anas bin Malik (RA) that he said: "I prayed two rak'ahs with the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) in Mina, and with Abu Bakr and 'Umar, and two rak'ahs with 'Uthman at the beginning of his Caliphate."