باب: سورج گرہن کے وقت تسبیحات و تکبیرات کہنا اور دعا مانگنا
)
Sunan-nasai:
The Book of Eclipses
(Chapter: Tasbih, Takbir and supplication while the sun is eclipsed)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1460.
حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ میں تیر اندازی کر رہا تھا کہ سورج کو گرہن لگ گیا۔ میں نے اپنے تیر اکٹھے کیے اور دل میں عزم کیا کہ میں ضرور جاکر دیکھوں گا کہ اللہ کے رسول ﷺ اس موقع پر کیا طریقہ اختیار فرماتے ہیں۔ میں آپ کی پچھلی جانب سے آپ کے قریب آیا۔ اس وقت آپ مسجد میں تھے۔ آپ تسبیح و تکبیر پڑھنے لگے اور دعا کرنے لگے حتیٰ کہ گرہن ختم ہوگیا، پھر آپ اٹھے اور آپ نے دو رکعتیں پڑھیں اور چار سجدے کیے۔
تشریح:
(1) سورج یا چاند گرہن لگنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھی جائیں گی، جس قدر لمبی پڑھی جا سکیں۔ پھر تسبیحات، تکبیرات پڑھی اور دعائیں مانگی جائیں گی تا آنکہ گرہن ختم ہو جائے۔ (2) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید تسبیحات، تکبیرات اور دعائیں پہلے ہیں اور نماز بعد میں۔ لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ اس موضوع سے متعلق جمیع روایات اس کے خلاف ہیں بلکہ صحیح مسلم میں عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں جب مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الکسوف، حدیث: ۹۱۲) بنا بریں اگرچہ بعض ائمہ و محققین نے اس کی مختلف تاویلیں کی ہیں لیکن دلائل کی رو سے اور جمیع روایات کو جمع کرنے سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت میں نماز سے پہلے تسبیح و تکبیر اور دعا کا ذکر کرنا کسی راوی کی غلطی اور وہم ہے۔ واللہ أعلم۔ نیز شیخ البانی رحمہ اللہ بھی اس حدیث کی تحقیق میں یہی کچھ لکھتے ہیں، فرماتے ہیں: [أما نحن فنراھا خطأ من بعض الرواة عن الجریری، واللہ أعلم۔] مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم لصلاة الکسوف، ص: ۷۴-۶۸، رقم الحدیث: ۱۴، ذخیرة العقبی شرح سنن النسائي: ۳۹۱-۳۸۹/۱۶) (3) گرہن کے موقع پر نماز، توبہ اور تسبیحات کا حکم ہے۔ گویا مظاہر قدرت میں کسی قسم کی تبدیلی سے ہم میں بھی عبرت پذیری آنی چاہیے اور دنیا سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وقد أخرجه مسلم في "صحيحه" وقوله: فقرأ
بسورتين وركع ركعتين... إن لم يحمل على أنه أراد بذلك: في كل ركعة فهو
شاذ؛ لما سبق بيانه في الذي قبله) .
إسناده: حدثنا مسدد: ثنا بشر بن المفَضَّلِ: ثنا الجُرَيْرِي عن حيان بن عُمَيْر
عن عبد الرحمن بن سمرة.
قلت: وهذا إسناد صحيح؛ رجاله رجال "الصحيح "، وأخرجه مسلم كما
يأتي.
والحديث أخرجه مسلم (3/35) ، والبيهقي (3/332) من طريقين آخرين عن
بشر... به.
وأخرجه النسائي (1/213) ، والحاكم (1/329) ، وأحمد (5/61- 62) من
طرق أخرى عن الجريري... به نحوه.
وقد اختلفوا عليه في متنه، كما بينته في الكتاب المفرد في "صلاة
الكسوف "، ورجحت هناك رواية بشر هذه؛ لتابعة إسماعيل ابن عُلَية إياه، وذكرت
اختلاف العلماء في المراد من قوله: وركع ركعتين... وما تعقب ابن التركماني به
البيهقي، وجوابنا عليه؛ فليراجع من شاء.
حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ میں تیر اندازی کر رہا تھا کہ سورج کو گرہن لگ گیا۔ میں نے اپنے تیر اکٹھے کیے اور دل میں عزم کیا کہ میں ضرور جاکر دیکھوں گا کہ اللہ کے رسول ﷺ اس موقع پر کیا طریقہ اختیار فرماتے ہیں۔ میں آپ کی پچھلی جانب سے آپ کے قریب آیا۔ اس وقت آپ مسجد میں تھے۔ آپ تسبیح و تکبیر پڑھنے لگے اور دعا کرنے لگے حتیٰ کہ گرہن ختم ہوگیا، پھر آپ اٹھے اور آپ نے دو رکعتیں پڑھیں اور چار سجدے کیے۔
حدیث حاشیہ:
(1) سورج یا چاند گرہن لگنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھی جائیں گی، جس قدر لمبی پڑھی جا سکیں۔ پھر تسبیحات، تکبیرات پڑھی اور دعائیں مانگی جائیں گی تا آنکہ گرہن ختم ہو جائے۔ (2) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید تسبیحات، تکبیرات اور دعائیں پہلے ہیں اور نماز بعد میں۔ لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ اس موضوع سے متعلق جمیع روایات اس کے خلاف ہیں بلکہ صحیح مسلم میں عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں جب مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الکسوف، حدیث: ۹۱۲) بنا بریں اگرچہ بعض ائمہ و محققین نے اس کی مختلف تاویلیں کی ہیں لیکن دلائل کی رو سے اور جمیع روایات کو جمع کرنے سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت میں نماز سے پہلے تسبیح و تکبیر اور دعا کا ذکر کرنا کسی راوی کی غلطی اور وہم ہے۔ واللہ أعلم۔ نیز شیخ البانی رحمہ اللہ بھی اس حدیث کی تحقیق میں یہی کچھ لکھتے ہیں، فرماتے ہیں: [أما نحن فنراھا خطأ من بعض الرواة عن الجریری، واللہ أعلم۔] مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم لصلاة الکسوف، ص: ۷۴-۶۸، رقم الحدیث: ۱۴، ذخیرة العقبی شرح سنن النسائي: ۳۹۱-۳۸۹/۱۶) (3) گرہن کے موقع پر نماز، توبہ اور تسبیحات کا حکم ہے۔ گویا مظاہر قدرت میں کسی قسم کی تبدیلی سے ہم میں بھی عبرت پذیری آنی چاہیے اور دنیا سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن سمرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں تیر اندازی میں مشغول تھا، اتنے میں سورج کو گرہن لگ گیا، میں نے اپنے تیروں کو سمیٹا اور دل میں ارادہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن کے موقع پر کیا نئی بات کی ہے، اسے چل کر ضرور دیکھوں گا، میں آپ کے پیچھے کی جانب سے آپ کے پاس آیا، آپ مسجد میں تھے، تسبیح و تکبیر اور دعا میں لگے رہے، یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا، پھر آپ کھڑے ہوئے، اور دو رکعت نماز پڑھی، اور چار سجدے کیے۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ظاہر حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آفتاب صاف ہو جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، حالانکہ کسوف کی نماز گرہن صاف ہو جانے کے بعد درست نہیں، لہٰذا اس کی تاویل اس طرح کی جاتی ہے کہ عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو نماز ہی کی حالت میں کھڑا پایا، آپ تسبیح و تکبیر نماز ہی میں کر رہے تھے جیسا کہ مسلم کی ایک روایت میں ہے ۔ «فأتیناہ وهوقائمٌفي الصَّلاةِ، رافعٌيديهِ، فجعل يسبِّحُ اللهَ ويحمَدُهُ ويكبِّرُ ویدعو»”چنانچہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو اس حال میں پایا کہ آپ نماز میں کھڑے اپنے ہاتھوں کو اٹھائے ہوئے تھے اور اللہ کی تسبیح و تحمید اور تہلیل و تکبیر کے ساتھ ساتھ دعا بھی کر رہے تھے“ ، بعضوں نے کہا ہے یہ دونوں رکعتیں نماز کسوف سے الگ بطور شکرانہ کے تھیں، لیکن یہ قول ضعیف ہے، اور دوسری روایات کے ظاہر کے خلاف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdur-Rahman bin Samurah said: "While I was (practicing) shooting some arrows in Al-Madinah, the sun became eclipsed. I gathered up my arrows and said: 'I want to see what the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) will say about the eclipse of the sun.' So I came to him from behind when he was in the masjid, and he started to say the tasbih and takbir and to supplicate until the eclipse was over. Then he stood up and prayed two rak'ahs with four prostrations."