Sunan-nasai:
The Book of Eclipses
(Chapter: The command to call people to the eclipse prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1465.
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں سورج کو گرہن لگ گیا۔ تو آپ نے ایک اعلان کرنے والے کو حکم دیا کہ وہ یہ اعلان کرے کہ نماز (نماز کسوف) کے لیے جمع ہو جائیں۔ لوگ جمع ہوگئے اور انھوں نے صف بندی کی تو آپ نے انھیں دو رکعتیں چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھائیں۔
تشریح:
(1) اذان کے رائج ہونے سے پہلے فرض نماز کے لیے انھی لفظوں [الصلاة جامعة] سے بلایا جاتا تھا۔ اب اگر کسی نفل نماز کے لیے بلانا ہو تو ان لفظوں سے اعلان کیا جا سکتا ہے۔ اذان صرف فرض نماز کے لیے ہے۔ (2) ”چار رکوع“ نماز کسوف کے بارے میں زیادہ معتبر اور اوثق روایات ایک رکعت کے اندر دو رکوع کی ہیں۔ بعض محدثین نے تین، چار اور پانچ رکوع کی روایات کو بھی صحیح مان کر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ کسوف کے وقت کے حساب سے رکوع کم و بیش کیے جا سکتے ہیں۔ دو سے پانچ تک۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ احادیث میں صرف ایک کسوف کا ذکر ہے اور وہ کشوف ۲۸ شوال ۱۰ھ کا ہے جس دن آپ کے فرزند ارجمند ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تھے کیونکہ ہر روایت میں موت و حیات کا ذکر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک نماز کسوف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی طریقہ اختیار فرما سکتے تھے اور وہ معتبر روایات کے مطابق دو رکوع والا ہے۔ اس مسئلے کی تصفیل پیچھے ابتدائیے میں گزر چکی ہے۔ تفصیل کے لیے ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں۔ (3) احناف عام نماز کی طرح نماز کسوف میں بھی ہر رکعت میں ایک ہی رکوع کے قائل ہیں مگر اس طرح صحیح اور صریح کثیر روایات، یعنی بخاری و مسلم کی اعلیٰ پائے کی روایات عمل سے رہ جائیں گی اور نماز کسوف کی خصوصی علامت ختم ہو جائے گی۔ اگر عیدین میں زائد تکبیرات، جنازے میں قیام کی زائد تکبیرات اور نماز وتر میں دعائے قنوت کا اضافہ احادیث کی بنا پر ہوسکتا ہے تو صلاۃ کسوف میں انتہائی معتبر اور صحیح روایات کی بنا پر ایک رکوع کا اضافہ کیوں قابل تسلیم نہیں؟ سوچیے! ہر صحیح حدیث واجب العمل ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه مسلم وأبو عوانة في
"صحيحيهما"، لكن قوله:، ثلاث ركعات... شاذ، والمحفوظ: ركوعان... كما
في "ا إص-جمحين " وغيرهما من طرق عن عائشة رضي الله عنها، ويأتي أحدها
برقم (1071) ) .
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا إسماعيل ابن علية عن ابن جريج
عن عطاء عن عبيد عن عمير.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجه مسلم كما يأتي،
غير أن قوله: ثلاث ركعات.. شاذ، والمحفوظ: ركوعان.. ثبت ذلك عن عائشة
من طرق ثلاثة في "الصحيحين " وغيرهما، وهي مخرجة في كتابنا الخاص بهذه
الصلاة : " الكسوف ".
والحديث أخرجه أبو عوانة (2/370) من طريق المصنف.
والحاكم (1/332) من طريق أخرى عن ابن أبي شيبة.
وأخرجه النسائي (1/215) من طريق أخرى عن إسماعيل ابن عُلَيةَ... به.
وأخرجه مسلم (3/29) ، وأبو عوانة أيضا من طرق أخرى عن ابن جريج...
به؛ وقد صرح ابن جريج بالسماع من عطاء عند مسلم.
وله عنده طريق أخرى عن عطاء، ذكرتها في الصدر السابق، وبينت علتها.
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں سورج کو گرہن لگ گیا۔ تو آپ نے ایک اعلان کرنے والے کو حکم دیا کہ وہ یہ اعلان کرے کہ نماز (نماز کسوف) کے لیے جمع ہو جائیں۔ لوگ جمع ہوگئے اور انھوں نے صف بندی کی تو آپ نے انھیں دو رکعتیں چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھائیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اذان کے رائج ہونے سے پہلے فرض نماز کے لیے انھی لفظوں [الصلاة جامعة] سے بلایا جاتا تھا۔ اب اگر کسی نفل نماز کے لیے بلانا ہو تو ان لفظوں سے اعلان کیا جا سکتا ہے۔ اذان صرف فرض نماز کے لیے ہے۔ (2) ”چار رکوع“ نماز کسوف کے بارے میں زیادہ معتبر اور اوثق روایات ایک رکعت کے اندر دو رکوع کی ہیں۔ بعض محدثین نے تین، چار اور پانچ رکوع کی روایات کو بھی صحیح مان کر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ کسوف کے وقت کے حساب سے رکوع کم و بیش کیے جا سکتے ہیں۔ دو سے پانچ تک۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ احادیث میں صرف ایک کسوف کا ذکر ہے اور وہ کشوف ۲۸ شوال ۱۰ھ کا ہے جس دن آپ کے فرزند ارجمند ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تھے کیونکہ ہر روایت میں موت و حیات کا ذکر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک نماز کسوف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی طریقہ اختیار فرما سکتے تھے اور وہ معتبر روایات کے مطابق دو رکوع والا ہے۔ اس مسئلے کی تصفیل پیچھے ابتدائیے میں گزر چکی ہے۔ تفصیل کے لیے ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں۔ (3) احناف عام نماز کی طرح نماز کسوف میں بھی ہر رکعت میں ایک ہی رکوع کے قائل ہیں مگر اس طرح صحیح اور صریح کثیر روایات، یعنی بخاری و مسلم کی اعلیٰ پائے کی روایات عمل سے رہ جائیں گی اور نماز کسوف کی خصوصی علامت ختم ہو جائے گی۔ اگر عیدین میں زائد تکبیرات، جنازے میں قیام کی زائد تکبیرات اور نماز وتر میں دعائے قنوت کا اضافہ احادیث کی بنا پر ہوسکتا ہے تو صلاۃ کسوف میں انتہائی معتبر اور صحیح روایات کی بنا پر ایک رکوع کا اضافہ کیوں قابل تسلیم نہیں؟ سوچیے! ہر صحیح حدیث واجب العمل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو نبی ﷺ نے ایک منادی کو حکم دیا، تو اس نے ندا دی کہ نماز کے لیے جمع ہو جاؤ، تو سب جمع ہو گئے، اور انہوں نے صف بندی کی تو آپ نے انہیں چار رکوع، اور چار سجدوں کے ساتھ، دو رکعت نماز پڑھائی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah said: "The sun was eclipsed during the time of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم), and the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) commanded a caller to call out that prayer was about to begin in congregation. So they gathered and formed rows, and he led them in prayer, bowing four times in two rak'ahs and prostrating four times."