Sunan-nasai:
The Book of Eclipses
(Chapter: Another version)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1479.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج کو گرہن لگ گیا۔ آپ کے حکم سےاعلان کیا گیا کہ نماز کی جماعت ہونی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو دو رکوع کے ساتھ ایک رکعت پڑھائی، پھر آپ کھڑے ہوئے اور دو رکوع کے ساتھ ایک اور رکعت پڑھی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس سے زیادہ لمبا رکوع اور سجدہ میں نے کبھی نہیں کیا۔ محمد بن حمیر نے (اس روایت کے بیان میں) مروان کی مخالفت کی ہے۔
تشریح:
یہ مخالفت سند میں بھی ہے اور متن میں بھی جیسا کہ آئندہ حدیث سے واضح ہورہا ہے۔ سند میں مخالفت یہ ہے کہ مروان نے یحییٰ بن ابی کثیر کا استاد ابوسلمہ بتایا ہے جبکہ ابن حمیر نے ابوطعمہ۔ اور متن میں مروان نے سجدہ کہا ہے جب کہ محمد بن حمیر نے سجدتین (دوسجدے) کہا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح. لكن الاقتصار فيه على الركوع الواحد في الركعة
قصورا فقد أخرجه الشيخان من طريق أخرى عن ابن عمرو مختصراً؛ وفيه:
فركع ركعتين في سجدة... وهو الثابت عن غيره عنه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كما تقدم (1071
و 1072) ، وهو رواية لابن خزيمة والحاكم في طريق المؤلف) .
إسناده: حدئنا موسى بن إسماعيل: تنا حماد عن عطاء بن السائب عن
أبيه عن عبد الله بن عمرو.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال "الصحيح "؛ غير السائب والد عطاء،
وهو ثقة.
إلا أن عطاء كان اختلط، وحماد- وهو ابن سلمة- سمع منه قبل الاختلاط
وبعده، فلم يتميز حديثه.
لكن قد رواه عنه سفيان وشعبة، وقد سمعا منه قبل الاختلاط، فصح
الحديث بذلك. لكن الاقتصار على الركوع الواحد في كل ركعة فيه ما ذكرته آنفاً.
والحديث أخرجه الطحاوي (1/194) من طريق أخرى عن حماد بن
سلمة... به.
وقد تابعه شعبة عن عطاء بن السائب... به.
أخرجه النسائي (1/222) ، وأحمد (2/188) .
وسفيان عنه.
ومن هذا الوجه: أخرجه الحاكم (1/329) ، والبيهقي (3/324) ؛ إلا أنهما
قالا: عن سفيان عن يعلى بن عطاء عن أبيه. وعطاء بن السائب... به.
وكل هذه الطرق ليس فيها ذكر الركوع الثاني من كل ركعة؛ إلا في رواية
الحاكم عن سفيان، وهي موافقة لرواية أبي سلمة بن عبد الرحمن عن ابن عمرو:
عند الشيخين وغيرهما، وهي مخرجة في كتابنا "صلاة الكسوف "، وذكرت لها
طريقاً أخرى. وقال البيهقي:
" فهذا الراوي حفظ عن عبد الله بن عمرو طول السجود، ولم يحفظ ركعتين
في ركعة واحدة. وأبو سلمة حفظ ركعتين في ركعة، وحفظ طول السجود عن
عائشة... "، ثم ساق رواية الحاكم من طريق مؤمل بن إسماعيل: ثنا سفيان...
فذكره بالإسنادين جميعاً مع هذه الزيادة؛ وقال:
" وقد أخرجه ابن خزيمة في "مختصر الصحيح "... ".
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج کو گرہن لگ گیا۔ آپ کے حکم سےاعلان کیا گیا کہ نماز کی جماعت ہونی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو دو رکوع کے ساتھ ایک رکعت پڑھائی، پھر آپ کھڑے ہوئے اور دو رکوع کے ساتھ ایک اور رکعت پڑھی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس سے زیادہ لمبا رکوع اور سجدہ میں نے کبھی نہیں کیا۔ محمد بن حمیر نے (اس روایت کے بیان میں) مروان کی مخالفت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ مخالفت سند میں بھی ہے اور متن میں بھی جیسا کہ آئندہ حدیث سے واضح ہورہا ہے۔ سند میں مخالفت یہ ہے کہ مروان نے یحییٰ بن ابی کثیر کا استاد ابوسلمہ بتایا ہے جبکہ ابن حمیر نے ابوطعمہ۔ اور متن میں مروان نے سجدہ کہا ہے جب کہ محمد بن حمیر نے سجدتین (دوسجدے) کہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا، تو آپ نے (نماز کا) حکم دیا تو «الصلاة جامعة» (نماز باجماعت پڑھی جائے گی) کی منادی کرائی گئی، تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی (پہلی رکعت میں) آپ نے دو رکوع اور ایک سجدہ کیا۱؎ ، پھر آپ کھڑے ہوئے، پھر آپ نے (دوسری رکعت میں بھی) دو رکوع اور ایک سجدہ کیا۔ ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں: میں نے کبھی اتنا لمبا رکوع نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی اتنا لمبا سجدہ کیا۔ محمد بن حمیر نے مروان کی مخالفت کی ہے۔۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہاں سجدہ سے مراد مکمل ایک رکعت ہے، کیونکہ کسی بھی نماز میں ایک سجدہ کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ ایک رکعت دو رکوع کے ساتھ پڑھی۔ ۲؎ : یہ مخالفت سند اور متن دونوں میں ہے، سند میں مخالفت یہ ہے کہ مروان کی روایت میں یحییٰ بن ابی کثیر اور عبداللہ بن عمرو کے درمیان ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کا واسطہ ہے، اور محمد بن حمیر کی روایت میں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کی جگہ ابوطعمہ کا واسطہ ہے، اور متن میں مخالفت یہ ہے کہ مروان کی روایت میں سجدہ کا لفظ آیا ہے، اور محمد بن حمیر کی روایت میں اس کی جگہ سجدتین کا لفظ آیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abdullah bin 'Amr said: "The sun was eclipsed during the time of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم), so he issued orders that the call be given: 'As-salatu jam'iah. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) led the people in prayer, bowing twice and prostrating twice. Then he stood and prayed, bowing twice and prostrating once. 'Aishah said: 'I never bowed or prostrated for so long as that.'"