Sunan-nasai:
The Book of Eclipses
(Chapter: Another version)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1481.
حضرت عائشہ ؓ بتاتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کے دور میں سورج کو گرہن لگا تو آپ نے وضو فرمایا اور حکم دیا تو اعلان کیا گیا کہ نماز کی جماعت ہونی ہے، پھر آپ نے قیام شروع فرمایا اور نماز میں بہت لمبا قیام فرمایا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میرا اندازہ ہے کہ آپ نے سورۂ بقرہ پڑھی، پھر آپ نے رکوع فرمایا اور لمبا رکوع فرمایا، پھر فرمایا: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، پھر قیام کیا جس طرح پہلا قیام فرمایا تھا۔ سجدہ نہیں کیا، پھر رکوع میں گئے، پھر سجدہ کیا، پھر کھڑے ہوئے اور اس رکعت میں بھی پہلی رکعت کی طرح دو رکوع اور دو سجدے کیے، پھر (تشہد میں) بیٹھے۔ اتنے میں سورج بھی روشن ہوگیا۔
تشریح:
(1) ”میرا اندازہ ہے۔“ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ نماز کسوف میں قراءت آہستہ ہونی چاہیے۔ اگر آپ جہر فرماتے تو اندازہ لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ حالانکہ آگے صریح روایت (۱۴۹۵) آرہی ہے کہ آپ نے بلند آواز سے قراءت کی اور وہ روایت بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے ہے۔ اور وہ صحیحین کی روایت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الکسوف، حدیث:۶۰۶۵ و صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:(۵)۔ ۹۰۱) صریح روایت کے مقابلے میں جو اصح بھی ہے، ایک مبہم روایت کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ بلکہ صریح روایت کو ترجیح ہوگی یا تطبیق دی جائے گی کہ آپ نے قراءت جہراً کی تھی مگر مجمع زیادہ دور ہونے کی وجہ سے قراء ت سنائی نہیں دے سکتی تھی۔ یا دور والوں کو آواز تو سنائی دیتی تھی مگر سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ تبھی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جہر کی روایت بھی بیان فرماتی ہیں اور اندازہ بھی لگا رہی ہیں۔ بعض اہل علم نے یہ تطبیق بیان کی ہے کہ طولِ زمانہ کی وجہ سے آپ کو یاد نہ رہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا قراءت کی تھی، اس لیے تخمینہ بیان کیا لیکن پہلی بات ہی درست ہے۔ (2) اس روایت اور روایت نمبر ۱۴۸۰ میں اختصار ہے کہ دو سجدوں کی تفصیل نہیں صرف سجدے کا ذکر ہے کیونکہ نماز کسوف عام نماز سے صرف رکوع میں مختلف ہے، اس لیے رکوع کی تفصیل بیان کردی کہ وہ ایک رکعت میں دو تھے مگر سجدے تو اتفاقاً ہر نماز میں ایک رکعت میں دو ہی ہیں، لہٰذا اسے مبہم ذکر کردیا۔ کوئی شخص بھی ایک سجدے کا قائل نہیں۔ امام صاحب نے شاید ظاہر الفاظ کے پیش نظر اسے ”ایک اور صورت“ بنادیا، ورنہ یہ کوئی صورت نہیں، نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں تصحیف واقع ہوئی ہے۔ اصل میں فی سجدۃ تھا، غلطی سے وسجدۃ ہوگیا یا وسجدتین سے وسجدۃ ہوگیا جو یقیناً غلطی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (ذخیرة العقبٰی شرح سنن النسائي: ۱۶؍۴۳۳)
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح. لكن الاقتصار فيه على الركوع الواحد في الركعة
قصورا فقد أخرجه الشيخان من طريق أخرى عن ابن عمرو مختصراً؛ وفيه:
فركع ركعتين في سجدة... وهو الثابت عن غيره عنه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كما تقدم (1071
و 1072) ، وهو رواية لابن خزيمة والحاكم في طريق المؤلف) .
إسناده: حدئنا موسى بن إسماعيل: تنا حماد عن عطاء بن السائب عن
أبيه عن عبد الله بن عمرو.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال "الصحيح "؛ غير السائب والد عطاء،
وهو ثقة.
إلا أن عطاء كان اختلط، وحماد- وهو ابن سلمة- سمع منه قبل الاختلاط
وبعده، فلم يتميز حديثه.
لكن قد رواه عنه سفيان وشعبة، وقد سمعا منه قبل الاختلاط، فصح
الحديث بذلك. لكن الاقتصار على الركوع الواحد في كل ركعة فيه ما ذكرته آنفاً.
والحديث أخرجه الطحاوي (1/194) من طريق أخرى عن حماد بن
سلمة... به.
وقد تابعه شعبة عن عطاء بن السائب... به.
أخرجه النسائي (1/222) ، وأحمد (2/188) .
وسفيان عنه.
ومن هذا الوجه: أخرجه الحاكم (1/329) ، والبيهقي (3/324) ؛ إلا أنهما
قالا: عن سفيان عن يعلى بن عطاء عن أبيه. وعطاء بن السائب... به.
وكل هذه الطرق ليس فيها ذكر الركوع الثاني من كل ركعة؛ إلا في رواية
الحاكم عن سفيان، وهي موافقة لرواية أبي سلمة بن عبد الرحمن عن ابن عمرو:
عند الشيخين وغيرهما، وهي مخرجة في كتابنا "صلاة الكسوف "، وذكرت لها
طريقاً أخرى. وقال البيهقي:
" فهذا الراوي حفظ عن عبد الله بن عمرو طول السجود، ولم يحفظ ركعتين
في ركعة واحدة. وأبو سلمة حفظ ركعتين في ركعة، وحفظ طول السجود عن
عائشة... "، ثم ساق رواية الحاكم من طريق مؤمل بن إسماعيل: ثنا سفيان...
فذكره بالإسنادين جميعاً مع هذه الزيادة؛ وقال:
" وقد أخرجه ابن خزيمة في "مختصر الصحيح "... ".
حضرت عائشہ ؓ بتاتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کے دور میں سورج کو گرہن لگا تو آپ نے وضو فرمایا اور حکم دیا تو اعلان کیا گیا کہ نماز کی جماعت ہونی ہے، پھر آپ نے قیام شروع فرمایا اور نماز میں بہت لمبا قیام فرمایا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میرا اندازہ ہے کہ آپ نے سورۂ بقرہ پڑھی، پھر آپ نے رکوع فرمایا اور لمبا رکوع فرمایا، پھر فرمایا: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، پھر قیام کیا جس طرح پہلا قیام فرمایا تھا۔ سجدہ نہیں کیا، پھر رکوع میں گئے، پھر سجدہ کیا، پھر کھڑے ہوئے اور اس رکعت میں بھی پہلی رکعت کی طرح دو رکوع اور دو سجدے کیے، پھر (تشہد میں) بیٹھے۔ اتنے میں سورج بھی روشن ہوگیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”میرا اندازہ ہے۔“ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ نماز کسوف میں قراءت آہستہ ہونی چاہیے۔ اگر آپ جہر فرماتے تو اندازہ لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ حالانکہ آگے صریح روایت (۱۴۹۵) آرہی ہے کہ آپ نے بلند آواز سے قراءت کی اور وہ روایت بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے ہے۔ اور وہ صحیحین کی روایت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الکسوف، حدیث:۶۰۶۵ و صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:(۵)۔ ۹۰۱) صریح روایت کے مقابلے میں جو اصح بھی ہے، ایک مبہم روایت کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ بلکہ صریح روایت کو ترجیح ہوگی یا تطبیق دی جائے گی کہ آپ نے قراءت جہراً کی تھی مگر مجمع زیادہ دور ہونے کی وجہ سے قراء ت سنائی نہیں دے سکتی تھی۔ یا دور والوں کو آواز تو سنائی دیتی تھی مگر سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ تبھی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جہر کی روایت بھی بیان فرماتی ہیں اور اندازہ بھی لگا رہی ہیں۔ بعض اہل علم نے یہ تطبیق بیان کی ہے کہ طولِ زمانہ کی وجہ سے آپ کو یاد نہ رہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا قراءت کی تھی، اس لیے تخمینہ بیان کیا لیکن پہلی بات ہی درست ہے۔ (2) اس روایت اور روایت نمبر ۱۴۸۰ میں اختصار ہے کہ دو سجدوں کی تفصیل نہیں صرف سجدے کا ذکر ہے کیونکہ نماز کسوف عام نماز سے صرف رکوع میں مختلف ہے، اس لیے رکوع کی تفصیل بیان کردی کہ وہ ایک رکعت میں دو تھے مگر سجدے تو اتفاقاً ہر نماز میں ایک رکعت میں دو ہی ہیں، لہٰذا اسے مبہم ذکر کردیا۔ کوئی شخص بھی ایک سجدے کا قائل نہیں۔ امام صاحب نے شاید ظاہر الفاظ کے پیش نظر اسے ”ایک اور صورت“ بنادیا، ورنہ یہ کوئی صورت نہیں، نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں تصحیف واقع ہوئی ہے۔ اصل میں فی سجدۃ تھا، غلطی سے وسجدۃ ہوگیا یا وسجدتین سے وسجدۃ ہوگیا جو یقیناً غلطی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (ذخیرة العقبٰی شرح سنن النسائي: ۱۶؍۴۳۳)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ نے وضو کیا، اور حکم دیا تو ندا دی گئی: «الصلاة جامعة» (نماز باجماعت ہو گی)، پھر آپ (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے، تو آپ نے لمبا قیام کیا، عائشہ ؓ کہتی ہیں: تو مجھے گمان ہوا کہ آپ نے سورۃ البقرہ پڑھی، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا، پھر آپ نے: «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہا، پھر آپ نے اسی طرح قیام کیا جیسے پہلے کیا تھا، اور سجدہ نہیں کیا، پھر آپ نے رکوع کیا پھر سجدہ کیا، پھر آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے پہلے ہی کی طرح دو رکوع اور ایک سجدہ کیا، پھر آپ بیٹھے، تب سورج سے گرہن چھٹ چکا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hafs, the freed slave of 'Aishah, narrated that 'Aishah told him: "When the sun was eclipsed during the time of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم), he performed wudu' and ordered that the call be given: 'As-salatu jami'ah.' He stood for a long time in prayer," and 'Aishah said: "I thought that he recited Surah Al-Baqarah. Then he bowed for a long time, then he said: Sami' Allahu liman hamidah. Then he bowed, then prostrated. Then he stood up and did the same again, bowing twice and prostrating once. Then he sat and the eclipse ended."