Sunan-nasai:
The Book of Eclipses
(Chapter: The command to seek forgiveness during an eclipse)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1503.
حضرت ابوموسیٰ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سورج گہنا گیا تو نبی ﷺ گھبرا کر اٹھے۔ آپ کو خطرہ ہوا کہ قیامت نہ آجائے۔ آپ اٹھے حتیٰ کہ مسجد میں آئے اور کھڑے ہوکر اتنے لمبے قیام، رکوع اور سجدے کے ساتھ نماز پڑھی کہ میں نے کبھی آپ کو کسی نماز میں اتنے لمبے قیام، رکوع اور سجدے کرتے نہیں دیکھا، پھر آپ نے فرمایا: ”تحقیق یہ نشانیاں جو اللہ تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے، کسی کی موت و حیات کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ انھیں، اس لیے ظاہر فرماتا ہے کہ اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی بنا پر اپنا خوف پیدا فرمائے۔ جب تم کوئی ایسی چیز دیکھو تو فوراً اللہ کا ذکرکرو، دعائیں کرو اور اس سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو۔“
تشریح:
(1) راویٔ حدیث نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ اور جلدی سے اندازہ لگایا کہ شاید آپ کو قیامت کا خطرہ محسوس ہوا ہے، یہ نہیں کہ آپ کو واقعی قیامت کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا کیونکہ قیامت کی بہت سی نشانیاں آپ نے بیان فرمائی ہیں جن میں سے سوائے آپ کی بعثت کے اور کوئی نشانی بھی پوری نہ ہوئی تھی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ممکن ہے گھبراہٹ کی بنا پر آپ کا ذہن ان نشانیوں کی طرف متوجہ نہ ہوسکا یا اس وقت تک ابھی آپ کو دوسری نشانیاں بتلائی ہی نہ گئی تھیں، حالانکہ یہ واقعہ آپ کی وفات سے صرف چار، ساڑھے چار ماہ قبل ہوا ہے۔ آخری دونوں وجوہ کمزور ہیں۔ (2) چاند گرہن کا کوئی واقعہ احادیث میں منقول نہیں مگر تمام احادیث میں سورج اور چاند کو اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے اور احکام بھی مشترکہ ہی دیے گئے ہیں، لہٰذا چاند گرہن کے موقع پر بھی نمازکسوف اسی طرح پڑھی جائے گی اور دیگر احکام بھی لاگو ہوں گے۔ احناف نے بعض مصالح کی بنا پر چاند گرہن میں جماعت کو مناسب نہیں سمجھا مگر روایات صراحتاً ان کے خلاف ہیں۔ (3) نماز کسوف کے بارے میں پینتالیس (۴۵) روایات ذکر کی گئی ہیں جن کا تعلق ایک یہ واقعے سے ہے۔ کچھ مفصل ہیں کچھ مجمل، پھر بعض میں وہم اور غلط فہمی بھی ہے، لہٰذا تمام روایات کو ملا کر مجموعی طور پر جو واقعے کی کیفیت سمجھ میں آتی ہے، وہ معتبر ہوگی، نیز اکا دکا روایات میں اگر کوئی بات کثیر روایات کے خلاف آگئی ہے تو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے وہم قرار دیا جائے گا، خواہ راوی ثقہ ہی ہوں کیونکہ کسی واقعے کی تحقیق کا یہی طریقہ ہے۔ واللہ اعلم۔
حضرت ابوموسیٰ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سورج گہنا گیا تو نبی ﷺ گھبرا کر اٹھے۔ آپ کو خطرہ ہوا کہ قیامت نہ آجائے۔ آپ اٹھے حتیٰ کہ مسجد میں آئے اور کھڑے ہوکر اتنے لمبے قیام، رکوع اور سجدے کے ساتھ نماز پڑھی کہ میں نے کبھی آپ کو کسی نماز میں اتنے لمبے قیام، رکوع اور سجدے کرتے نہیں دیکھا، پھر آپ نے فرمایا: ”تحقیق یہ نشانیاں جو اللہ تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے، کسی کی موت و حیات کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ انھیں، اس لیے ظاہر فرماتا ہے کہ اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی بنا پر اپنا خوف پیدا فرمائے۔ جب تم کوئی ایسی چیز دیکھو تو فوراً اللہ کا ذکرکرو، دعائیں کرو اور اس سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) راویٔ حدیث نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ اور جلدی سے اندازہ لگایا کہ شاید آپ کو قیامت کا خطرہ محسوس ہوا ہے، یہ نہیں کہ آپ کو واقعی قیامت کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا کیونکہ قیامت کی بہت سی نشانیاں آپ نے بیان فرمائی ہیں جن میں سے سوائے آپ کی بعثت کے اور کوئی نشانی بھی پوری نہ ہوئی تھی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ممکن ہے گھبراہٹ کی بنا پر آپ کا ذہن ان نشانیوں کی طرف متوجہ نہ ہوسکا یا اس وقت تک ابھی آپ کو دوسری نشانیاں بتلائی ہی نہ گئی تھیں، حالانکہ یہ واقعہ آپ کی وفات سے صرف چار، ساڑھے چار ماہ قبل ہوا ہے۔ آخری دونوں وجوہ کمزور ہیں۔ (2) چاند گرہن کا کوئی واقعہ احادیث میں منقول نہیں مگر تمام احادیث میں سورج اور چاند کو اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے اور احکام بھی مشترکہ ہی دیے گئے ہیں، لہٰذا چاند گرہن کے موقع پر بھی نمازکسوف اسی طرح پڑھی جائے گی اور دیگر احکام بھی لاگو ہوں گے۔ احناف نے بعض مصالح کی بنا پر چاند گرہن میں جماعت کو مناسب نہیں سمجھا مگر روایات صراحتاً ان کے خلاف ہیں۔ (3) نماز کسوف کے بارے میں پینتالیس (۴۵) روایات ذکر کی گئی ہیں جن کا تعلق ایک یہ واقعے سے ہے۔ کچھ مفصل ہیں کچھ مجمل، پھر بعض میں وہم اور غلط فہمی بھی ہے، لہٰذا تمام روایات کو ملا کر مجموعی طور پر جو واقعے کی کیفیت سمجھ میں آتی ہے، وہ معتبر ہوگی، نیز اکا دکا روایات میں اگر کوئی بات کثیر روایات کے خلاف آگئی ہے تو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے وہم قرار دیا جائے گا، خواہ راوی ثقہ ہی ہوں کیونکہ کسی واقعے کی تحقیق کا یہی طریقہ ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوموسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ گھبرا کر کھڑے ہوئے، آپ ڈر رہے تھے کہ کہیں قیامت تو نہیں آ گئی ہے، چنانچہ آپ اٹھے یہاں تک کہ مسجد آئے، پھر نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو آپ نے اتنے لمبے لمبے قیام، رکوع اور سجدے کیے کہ اتنے لمبے میں نے آپ کو کسی نماز میں کرتے نہیں دیکھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ وہ نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے، یہ نہ کسی کے مرنے سے ہوتے ہیں نہ کسی کے پیدا ہونے سے، بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتا ہے، تو جب تم ان میں سے کچھ دیکھو تو اللہ کو یاد کرنے اور اس سے دعا اور استغفار کرنے کے لیے دوڑ پڑو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Musa said: "There was an eclipse of the sun, and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) got up in a rush, fearing that it might be the Hour. He went to the masjid, where he stood and prayed, standing, bowing and prostrating for the longest time that I ever saw him do in prayer. Then he said: 'These signs that Allah (SWT) sends do not occur for the death or birth of anyone, but Allah (SWT) sends them to strike fear into His slaves. If you see any of these things, then hasten to remember Him, call upon Him supplicate and ask for His forgiveness.'"