Sunan-nasai:
The Book of Praying for Rain (Al-Istisqa')
(Chapter: It is Makruh to attribute rain to the stars)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1524.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب بھی میں اپنے بندوں پر کوئی نعمت (مثلاً: بارش) نازل فرماتا ہوں تو ان میں سے ایک گروہ اس کی وجہ سے کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ کہتا ہے: ہم پر فلاں ستارے نے بارش برسائی ہے یا ہم فلاں ستارے سے سیراب ہوئے۔“
تشریح:
مذکورہ طریقے پر بارش کی نسبت ستارے کی طرف کرنا (یعنی اس نے برسائی) کفریہ الفاظ ہیں۔ ایک موحد اس قسم کے الفاظ کہنے سے گریز کرتا ہے کیونکہ اس کا عقیدہ یہ نہیں ہوتا، مگر کافر تو اس عقیدے کے بھی قائل تھے۔ بہرصورت یہ الفاظ کفریہ ہیں، البتہ اگر ستارے کے طلوع وغیرہ کو بارش برسنے کی علامت یا وقت کہا جائے تو پھر یہ کفریہ الفاظ نہیں مگر ایک بے تحقیق اور غلط بات ضرور ہے، ہاں اگر بادلوں اورہواؤں کی طرف بارش کی نسبت بطور علامت کرے تو کوئی حرج نہیں۔ احادیث اور کلام عرب اس پر دال ہیں، نیز یہ چیزیں بارش کا ظاہری سبب ہیں، بخلاف ستاروں کے کہ ان کا ظاہراً بارش سے کوئی تعلق نہیں، نیز اس میں ستارہ پرستوں سے مشابہت ہے، لہٰذا منع ہے۔ دوسرے معنیٰ یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ان میں سے ایک گروہ اس کی ناشکری کرتا ہے یا اس کے نعمت الہٰیہ ہونے کا انکار کرتا ہے۔ یہاں سے ضمناً یہ معلوم ہوا کہ عقائد میں مجازات اور استعارات کا استعمال درست نہیں، خصوصاً توحید جیسے مسئلے میں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب بھی میں اپنے بندوں پر کوئی نعمت (مثلاً: بارش) نازل فرماتا ہوں تو ان میں سے ایک گروہ اس کی وجہ سے کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ کہتا ہے: ہم پر فلاں ستارے نے بارش برسائی ہے یا ہم فلاں ستارے سے سیراب ہوئے۔“
حدیث حاشیہ:
مذکورہ طریقے پر بارش کی نسبت ستارے کی طرف کرنا (یعنی اس نے برسائی) کفریہ الفاظ ہیں۔ ایک موحد اس قسم کے الفاظ کہنے سے گریز کرتا ہے کیونکہ اس کا عقیدہ یہ نہیں ہوتا، مگر کافر تو اس عقیدے کے بھی قائل تھے۔ بہرصورت یہ الفاظ کفریہ ہیں، البتہ اگر ستارے کے طلوع وغیرہ کو بارش برسنے کی علامت یا وقت کہا جائے تو پھر یہ کفریہ الفاظ نہیں مگر ایک بے تحقیق اور غلط بات ضرور ہے، ہاں اگر بادلوں اورہواؤں کی طرف بارش کی نسبت بطور علامت کرے تو کوئی حرج نہیں۔ احادیث اور کلام عرب اس پر دال ہیں، نیز یہ چیزیں بارش کا ظاہری سبب ہیں، بخلاف ستاروں کے کہ ان کا ظاہراً بارش سے کوئی تعلق نہیں، نیز اس میں ستارہ پرستوں سے مشابہت ہے، لہٰذا منع ہے۔ دوسرے معنیٰ یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ان میں سے ایک گروہ اس کی ناشکری کرتا ہے یا اس کے نعمت الہٰیہ ہونے کا انکار کرتا ہے۔ یہاں سے ضمناً یہ معلوم ہوا کہ عقائد میں مجازات اور استعارات کا استعمال درست نہیں، خصوصاً توحید جیسے مسئلے میں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب بھی میں نے اپنے بندوں کو بارش کی نعمت سے نوازا تو ان میں سے ایک گروہ اس کی وجہ سے کافر رہا، وہ لوگ کہتے رہے: فلاں ستارے نے ایسا کیا ہے، اور فلاں ستارے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : حالانکہ ستاروں میں کوئی طاقت نہیں، وہ تو جماد ہیں، یہ نعمت تو اس ذات باری تعالیٰ نے دی ہے جس نے ستاروں، ساری مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Allah, the Mighty and Sublime, said: I have never sent down My favor to My slaves but a group of them became disbelievers who say; "The stars and by stars.'"