باب: جب بارش سے نقصان کا خطر ہ ہو توامام کااس کےبند ہونے کی د عا کرنا
)
Sunan-nasai:
The Book of Praying for Rain (Al-Istisqa')
(Chapter: Imam asking for rain to be stopped if he fears that it may cause harm)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1527.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک سال تک بارش رکی رہی تو ایک مسلمان جمعۃ المبارک کے دن (خطبے کے دوران میں) نبی ﷺ کے سامنے آکھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! بارش (سال بھر سے) رکی ہوئی ہے، زمین بنجر ہوگئی ہے اور جانور مررہے ہیں۔ راوی بیان کرتا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے جب کہ ہم آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں دیکھتے تھے۔ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر اٹھائے کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ آپ اللہ عزوجل سے بارش کی دعا کرنے لگے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ابھی ہم جمعہ پڑھ کر فارغ نہ ہوئے تھے (یعنی ابھی جمعے میں مصروف تھے، اتنی بارش برسی) کہ ہم میں قریب گھر والے نوجوان شخص کو بھی فکر لاحق ہوگئی کہ گھر کیسے پہنچوں گا؟ (دور والے اور بوڑھوں کی تو بات ہی کیا۔) پھر پورا ہفتہ بارش برستی رہی۔ جب اگلا جمعہ آیا تو لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! (کثرت بارش کی بنا پر) گھرگرگئے اور قافلے رک گئے۔ آپ انسان کے جلدی اکتا جانے پر مسکرائے، پھر ہاتھ اٹھا کر فرمایا: ”اے اللہ ہمارے اردگرد بارش برسا، ہم پر نہ برسا۔“ فوراً بادل مدینے سے چھٹ گئے۔
تشریح:
”بغلوں کی سفیدی“ بعض لوگوں نے سمجھا ہے کہ شاید آپ کی بغلوں میں بال نہ تھے مگر یہ بات غلط اور بلادلیل ہے۔ آپ کو انسانی عوارض سے مبرا قرار دینے کی کوشش کرنا کوئی عقل مندی کی بات نہیں اور نہ یہ چیز فضیلت کا موجب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکمل انسان تھے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک سال تک بارش رکی رہی تو ایک مسلمان جمعۃ المبارک کے دن (خطبے کے دوران میں) نبی ﷺ کے سامنے آکھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! بارش (سال بھر سے) رکی ہوئی ہے، زمین بنجر ہوگئی ہے اور جانور مررہے ہیں۔ راوی بیان کرتا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے جب کہ ہم آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں دیکھتے تھے۔ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر اٹھائے کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ آپ اللہ عزوجل سے بارش کی دعا کرنے لگے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ابھی ہم جمعہ پڑھ کر فارغ نہ ہوئے تھے (یعنی ابھی جمعے میں مصروف تھے، اتنی بارش برسی) کہ ہم میں قریب گھر والے نوجوان شخص کو بھی فکر لاحق ہوگئی کہ گھر کیسے پہنچوں گا؟ (دور والے اور بوڑھوں کی تو بات ہی کیا۔) پھر پورا ہفتہ بارش برستی رہی۔ جب اگلا جمعہ آیا تو لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! (کثرت بارش کی بنا پر) گھرگرگئے اور قافلے رک گئے۔ آپ انسان کے جلدی اکتا جانے پر مسکرائے، پھر ہاتھ اٹھا کر فرمایا: ”اے اللہ ہمارے اردگرد بارش برسا، ہم پر نہ برسا۔“ فوراً بادل مدینے سے چھٹ گئے۔
حدیث حاشیہ:
”بغلوں کی سفیدی“ بعض لوگوں نے سمجھا ہے کہ شاید آپ کی بغلوں میں بال نہ تھے مگر یہ بات غلط اور بلادلیل ہے۔ آپ کو انسانی عوارض سے مبرا قرار دینے کی کوشش کرنا کوئی عقل مندی کی بات نہیں اور نہ یہ چیز فضیلت کا موجب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکمل انسان تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ ایک سال بارش نہیں ہوئی تو کچھ مسلمان جمعہ کے دن نبی اکرم ﷺ کے سامنے کھڑے ہوئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! بارش نہیں ہو رہی ہے، زمین سوکھ گئی ہے، اور جانور ہلاک ہو گئے ہیں، تو آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، اور اس وقت آسمان میں ہمیں بادل کا کوئی ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا، آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو خوب دراز کیا یہاں تک کہ مجھے آپ کے بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگی، آپ اللہ تعالیٰ سے پانی برسنے کے لیے دعا کر رہے تھے۔ ابھی ہم جمعہ کی نماز سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے (کہ بارش ہونے لگی) یہاں تک کہ جس جوان کا گھر قریب تھا اس کو بھی اپنے گھر جانا مشکل ہو گیا، اور برابر دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی، جب اگلا جمعہ آیا تو لوگ کہنے لگے: اللہ کے رسول! گھر گر گئے، اور سوار محبوس ہو کر رہ گئے، تو رسول اللہ ﷺ ابن آدم (انسان) کے جلد اکتا جانے پر مسکرائے، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی: «اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا» ”اے اللہ! ہمارے اطراف میں برسا اور (اب) ہم پر نہ برسا“ تو مدینہ سے بادل چھٹ گئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Anas said: "There was no rain for a year, so some of the Muslims went to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) one Friday and said: 'O Messenger of Allah, there has been no rain; the land has become bare and our wealth has been destroyed.' He raised his hands, and we did not see any cloud in the sky. He stretched forth his hands until I could see the whiteness of his armpits, praying to Allah (SWT) for rain. When we finished praying Jumu'ah, even a young man whose house nearby was worried about how he would get home. That lasted for a week, then on the following Friday they said: 'O Messenger of Allah, houses have been destroyed and all travel has been ceased.' The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) smiled at how quickly the sons of Adam become weary, and he said with his hands raised: 'O Allah, around us and not on us,' and it dispersed from Al-Madinah."