Sunan-nasai:
The Book of the Fear Prayer
(Chapter: The narrations mentioned for the Fear Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1530.
حضرت ثعلبہ بن زہدم بیان کرتے ہیں کہ ہم سعید بن عاصی کے ساتھ طبرستان میں (جہاد کر رہے) تھے۔ انھوں نے کہا: تم میں سے کس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز خوف پڑھی ہے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: میں نے، پھر حضرت حذیفہ اٹھے اور لوگوں کی دوصفیں بنائیں۔ اپنے پیچھے والی صف کو آپ نے ایک رکعت پڑھائی، پھر یہ ان کی جگہ چلے گئے اور وہ (آپ کے پیچھے) آگئے۔ آپ نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی، پھر انھوں نے دوسری رکعت نہیں پڑھی۔
تشریح:
(1) نماز خوف کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے بلکہ یہ واحد نماز ہے جس کا طریقہ بھی اجمالی طور پر قرآن کریم میں بتلایا گیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مقامات پر یہ نماز پڑھی۔ مگر حنفیہ میں سے امام ابویوسف رحمہ اللہ اور شوافع میں سے امام مزنی رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسے قرآن یا احادیث میں مذکور طریقوں سے پڑھنا جائز نہیں سمجھتے۔ ان کا خیال ہے کہ نماز خوف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی کیونکہ ہر شخص آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا خواہاں تھا۔ جنگ اور خوف کی وجہ سے مجبوری تھی کہ سب اکٹھے نہیں پڑھ سکتے تھے۔ دو دفعہ ایک ہی نماز پڑھنا یا پڑھانا درست نہیں لہٰذا مجبوراً یہ طریقہ اختیار کیا گیا تاکہ ہر شخص آپ کے پیچھے نماز پڑھ سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں جس کے پیچھے نماز پڑھنے کی خصوصی فضیلت ہو یا سب اس کے پیچھے نماز پڑھنے کی خواہش رکھیں۔ قرآن مجید میں بھی نمازخوف کے بیان میں خصوصاً آپ سے خطاب کیا گیا ہے: (واذا کنت فیہم فاقمت لہم الصلوۃ) (النساء۴:۱۰۲) ”جب آپ ان میں ہوں تو آپ انھیں نماز پڑھائیں“ لہٰذا اب اگر خوف کا مسئلہ ہو تو دو گروہ کرلیے جائیں اورہر گروہ کو ان کے الگ الگ امام نماز پڑھائیں۔ مذکورہ بات عقل کو بہت جچتی ہے مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرزعمل اس کے مطابق نہیں۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نماز خوف مخصوص طریقوں سے پڑھی ہے، لہٰذا جمہور اہل علم کے نزدیک یہ نماز اب بھی مشروع ہے۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ (2) احادیث میں نماز خوف کے چھ سات طریقے منقول ہیں کیونکہ خوف کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، لہٰذا ہر جگہ ایک ہی طریقے سے نماز پڑھنا ممکن نہیں جیسا کہ آئندہ احادیث سے وضاحت ہوگی۔ یہ سب احادیث صحیح ہیں۔ موقع محل کے مطابق ان میں سے کوئی سا بھی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ جن حضرات نے ایک طریقہ معین کرنے کی کوشش کی ہے، انھوں نے غیرضروری تکلف برتا ہے۔ حسب حالات تمام احادیث پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ (3) اوپر مذکورہ دو احادیث میں ایک ہی واقعے کا بیان ہے۔ نمازخوف کی مخصوص مختلف صورتوں میں سے یہ بھی ایک صورت ہے، یعنی شدید خوف میں ایک رکعت بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث:۱۵۳۳۔
حضرت ثعلبہ بن زہدم بیان کرتے ہیں کہ ہم سعید بن عاصی کے ساتھ طبرستان میں (جہاد کر رہے) تھے۔ انھوں نے کہا: تم میں سے کس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز خوف پڑھی ہے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: میں نے، پھر حضرت حذیفہ اٹھے اور لوگوں کی دوصفیں بنائیں۔ اپنے پیچھے والی صف کو آپ نے ایک رکعت پڑھائی، پھر یہ ان کی جگہ چلے گئے اور وہ (آپ کے پیچھے) آگئے۔ آپ نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی، پھر انھوں نے دوسری رکعت نہیں پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) نماز خوف کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے بلکہ یہ واحد نماز ہے جس کا طریقہ بھی اجمالی طور پر قرآن کریم میں بتلایا گیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مقامات پر یہ نماز پڑھی۔ مگر حنفیہ میں سے امام ابویوسف رحمہ اللہ اور شوافع میں سے امام مزنی رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسے قرآن یا احادیث میں مذکور طریقوں سے پڑھنا جائز نہیں سمجھتے۔ ان کا خیال ہے کہ نماز خوف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی کیونکہ ہر شخص آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا خواہاں تھا۔ جنگ اور خوف کی وجہ سے مجبوری تھی کہ سب اکٹھے نہیں پڑھ سکتے تھے۔ دو دفعہ ایک ہی نماز پڑھنا یا پڑھانا درست نہیں لہٰذا مجبوراً یہ طریقہ اختیار کیا گیا تاکہ ہر شخص آپ کے پیچھے نماز پڑھ سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں جس کے پیچھے نماز پڑھنے کی خصوصی فضیلت ہو یا سب اس کے پیچھے نماز پڑھنے کی خواہش رکھیں۔ قرآن مجید میں بھی نمازخوف کے بیان میں خصوصاً آپ سے خطاب کیا گیا ہے: (واذا کنت فیہم فاقمت لہم الصلوۃ) (النساء۴:۱۰۲) ”جب آپ ان میں ہوں تو آپ انھیں نماز پڑھائیں“ لہٰذا اب اگر خوف کا مسئلہ ہو تو دو گروہ کرلیے جائیں اورہر گروہ کو ان کے الگ الگ امام نماز پڑھائیں۔ مذکورہ بات عقل کو بہت جچتی ہے مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرزعمل اس کے مطابق نہیں۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نماز خوف مخصوص طریقوں سے پڑھی ہے، لہٰذا جمہور اہل علم کے نزدیک یہ نماز اب بھی مشروع ہے۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ (2) احادیث میں نماز خوف کے چھ سات طریقے منقول ہیں کیونکہ خوف کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، لہٰذا ہر جگہ ایک ہی طریقے سے نماز پڑھنا ممکن نہیں جیسا کہ آئندہ احادیث سے وضاحت ہوگی۔ یہ سب احادیث صحیح ہیں۔ موقع محل کے مطابق ان میں سے کوئی سا بھی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ جن حضرات نے ایک طریقہ معین کرنے کی کوشش کی ہے، انھوں نے غیرضروری تکلف برتا ہے۔ حسب حالات تمام احادیث پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ (3) اوپر مذکورہ دو احادیث میں ایک ہی واقعے کا بیان ہے۔ نمازخوف کی مخصوص مختلف صورتوں میں سے یہ بھی ایک صورت ہے، یعنی شدید خوف میں ایک رکعت بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث:۱۵۳۳۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ثعلبہ بن زہدم کہتے ہیں کہ ہم سعید بن عاصی کے ساتھ طبرستان میں تھے، تو انہوں نے پوچھا: تم لوگوں میں سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خوف کی نماز کس نے پڑھی ہے؟ حذیفہ ؓ نے کہا: میں نے، پھر حذیفہ ؓ کھڑے ہو گئے، اور لوگوں نے ان کے پیچھے دو صف بنائی، ایک صف ان کے پیچھے تھی، اور ایک صف دشمن کے مقابلہ میں تھی، تو انہوں نے ان لوگوں کو جو ان کے پیچھے تھے ایک رکعت پڑھائی، پھر یہ لوگ دوسری صف والوں کی جگہ پر لوٹ گئے، اور وہ لوگ ان لوگوں کی جگہ پر آ گئے، پھر انہوں نے انہیں بھی ایک رکعت پڑھائی، اور ان لوگوں نے قضاء نہیں کی۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی دونوں گروہوں نے ایک ایک رکعت ہی پر بس کیا کسی نے دوسری رکعت نہیں پڑھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Tha'labah bin Zahdam said: "We were with Sa'eed bin Al-'Asi in Tabaristan, and Hudhaifah bin Al-Yaman was with us. He said: 'Which of you offered the fear prayer with the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم)?' Hudhaifah said: 'I did.' So Hudhaifah stood and the people formed two rows behind him, one row behind him and one row facing the enemy. He led those who were behind him in praying one rak'ah, then they went and took the place of the others, and the others came and he led them in praying one rak'ah, and they did not make it up."