Sunan-nasai:
The Book of the Prayer for the Two 'Eids
(Chapter: The Khutbah on the day of 'Eid)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1563.
حضرت شعبی بیان کرتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب ؓ نے ہمیں مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے پاس بیان کیا کہ نبی ﷺ نے ہمیں عیدالاضحیٰ کے دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”آج کے دن ہم سب سے پہلے جس چیز کی ابتدا کریں گے وہ یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں گے، پھر (قربانی) ذبح کریں گے۔ جو شخص ایسا کرے گا، وہ ہماری سنت پر عمل کرے گا اور جو اس (نماز پڑھنے) سے پہلے ذبح کرے گا تو یہ (قربانی نہیں بلکہ) اس نے اپنے گھر والوں کے لیے گوشت تیار کیا ہے۔“ اتفاقاً حضرت ابوبردہ بن دینار نے (نماز عید سے قبل) قربانی ذبح کردی تھی۔ وہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک جزعہ (نوجوان بکرا) جو دو دانتے سے (جسمانی طور پر) بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ”چلو اسے ذبح کردو لیکن ایسا جانور تیرے علاوہ کسی سے کفایت نہ کرے گا۔“
تشریح:
(1) ”کفایت نہ کرے گا“ کیونکہ قربانی کے لیے بکرے، گائے اور اونٹ کا دودانتا (جس کے سامنے کے دو دانت گر چکے ہوں) ہونا ضروری ہے۔ حدیث میں مذکورہ جزعہ (بکرا) دو دانتا، یعنی مسنہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے کم عمر ہوتا ہے، لہٰذا یہ کفایت نہیں کرے گا۔ بکرے کے جذعے کی رخصت خاص ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لیے تھی جیسا کہ حدیث میں ہے۔ جبکہ دنبے اور چھترے کا جذعہ جائز ہے، کسی فرد سے اس کی تخصیص نہیں۔ بنا بریں جس جانور کی قربانی کرنا بعد والوں کے لیے جائز نہیں، خواہ مجبور ہی کیوں نہ ہوں، وہ بکرے کے جذعے کی قربانی ہے۔ احادیث کے مجموعے سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) حدیث میں جذعہ سے مراد بکرے کا جذع ہے۔ بھیڑ کا جذع عموماً ایک سال کا ہوتا ہے، جمہور کی یہی رائے ہے۔ بعض نے چھ ماہ کے بھیڑ کے بچے کو بھی جذعہ کہا ہے مگر جمہور کی رائے کے مقابلے میں یہ موقف مرجوح ہے۔ واللہ أعلم۔ اس مسئلے کی تفصیل کے لیے اسی کتاب کی کتاب الضحایا کو دیکھیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1564
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1562
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
1564
تمہید کتاب
عيد،عود عيد، عود سے ماخوذ ہے جس کے معنی لوٹنے اور بار بار آنے کے ہیں۔ عید کو عید اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ بار بارلوٹ کر آتی ہے یا اس کے آنے سے مسرت و سرور اور خوشیاں لوٹ آتی ہیں۔عربوں کے ہاں اظہار مسرت کے لیے منعقد ہونے والے ہر موسمی اجتماع کو غیر کہا جاتا ہے۔ عربی میں عید کی جمع أعياد ہے۔ عیدین اس کا تثنیہ ہے۔ عیدین سے مراد عید الفطر اور عیدالاضحیٰ ہیں۔ یہ امت مسلمہ کے خوشی کے دن ہیں۔ نبی اکرمﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو عرب لوگ اس وقت دو دن کھیل کود کر خوشی منایا کرتے تھے۔ دودن نیروز اور مہرجان تھے۔ یہ دونوں کلمے فاری سے معرب ہیں۔ ”نیروز اصل میں نوروز (نیادن) اہل ہئیت کے نزدیک یہ شمسی سال کا پہلا دن ہوتا ہے۔ اس دن سورج برج حمل کی طرف منتقل ہوتاہے۔مہرجان اصل میں مہرگان ہے۔ اس سے مراد وہ دن ہے جب سورج برج میزان میں منتقل ہوتا ہے۔ موسم بہار کی مناسبت سے جشن کی صورت میں منایا جاتا ہے۔ یہ دونوں دن نہایت معتدل اور خوشگوار ہوتے ہیں۔ یہ اہل فارس (ایرانیوں) کے عیدکے دن ہیں۔ عرب فارسیوں کی نقالی اورتقلید میں انھیں مناتے تھے۔نبی اکرمﷺ نے ان دونوں کے منانے سے منع فرمایا اور ان کی بجائے دواچھے دن یعنی عید الفطر اور عیدالاضحیٰ منانے کاحکم دیا کیونکہ ان دونوں کا تعلق موسم کی خوشگواری کے بجائے دو عظیم عبادات کی ادائیگی سے ہے۔ عیدالفطر سے مراد وہ دن ہے جس میں لوگ روزے رکھنا چھوڑ دیتے ہیں‘یعنی یکم شوال اور عیدالاضحیٰ دہ دن ہے جس میں لوگ قربانیاں کرتے ہیں، یعنی اذ والحجہ کا دن۔ عیدین کا آغاز دو ہجری میں ہوا۔عیدین سے متعلق مسائل اور ان کی تفصیل احادیث کے ضمن میں آ رہی ہے۔ نماز کا طریقہ اور کچھ دیگراحکام یہاں اختصار اذکر کیے جاتے ہیں ۔زیب وزینت اختیار کرنا۔ عید کے دن غسل کرنا‘ عمدہ لباس پہنا، خوشبو لگانا اور زیب وزینت کی دیگر چیزیں اختیار کرنا مستحب ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:یقینا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے جمعے کے دن کو عید بنایا ہے چنانچہ جو شخص جمعے کے لیے آ ئے تو اسے چاہیے کہ غسل کرے اور اگر خوشبو ہو تو اسے لگائے اور مسواک کا بھی ضرور اہتمام کرے۔(سنن ابن ماجه إقامة الصلوات، باب ماجاء في الزينة يوم الجمعة، حديث:1098) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب جمعے کے دن غسل کرنے خوشبو لگانے اور مسواک کرنے کا سبب یہ بیان کیا گیاہے کہ جمعے کو اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کے لیے عید بنایا ہے تو عید کے دن ان تینوں کاموں کا کرنا اور زیادہ محبوب اور پسندید ہوگا ۔غسل کے استحباب کے مزید دلائل کے لیے دیکھیے(سنن ابن ماجه إقامة الصلوات حديث:1316و سنن النسائي صلاة العيدين حديث:1561اور ان کے فوائد و مسائل)نماز عید الفطر کے لیے کچھ کھا کر جانا : نماز عید الفطر کی ادائیگی کے لیے جانے سے پہلے طاق عدد میں کھجوریں کھانا مسنون عمل ہے۔ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عیدالفطر کے دن (نماز کے لیے) اس وقت تک نہیں نکلتے تھے جب تک (طاق عدد میں) چندکھجوریں تناول فرما لیتے۔ (صحیح البخاري العيدين حديث: ۹۵۳) اگر کھجوریں دستیاب نہ ہوں تو پھر کوئی بھی چیز کھائی جاسکتی ہے۔نماز عیدالاضحیٰ ادا کر کے کھانا پینا :نبی اکرمﷺ عیدالاضحیٰ کے دن نماز عید سے پہلے کچھ نہیں کھاتے تھے اس لیےیہی سنت ہے کہ عید الاضحیٰ کی ادائیگی کے بعد کھایا پیا جائے۔ حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نماز عید الفطر کے لیے کچھ کھائے بغیر نہ نکلتے تھے البتہ عید قربان کے دن جب تک نماز ادا فرما لیتے کچھ تناول نہ فرماتے۔ (جامع الترمذي العيدين حديث:542)امام بیہقی نے یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد واپسی پر آپ اپنی قربانی کی کلیجی اور جگر وغیره تناول فرماتے۔ (السنن الكبرى للبيهقي:3/283)عید گاہ کی طرف پیدل وسوار جانا: عید گاہ کی طرف پیدل بھی جایا جا سکتا ہے اور ضرورت کے پیش نظر سوار ہو کر جانا بھی جائز ہے۔شیخ البانی اس مسئلے کی بابت لکھتے ہیں کہ اس مسئلے میں تمام روایات انفرادی طور پر ضعیف ہیں لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسئلے کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے اور پھر اس مسئلے کی تائید و توثیق میں ایک مرسل روایت پیش کی ہے کہ رسول اللهﷺ جنازے میں شرکت اور عیدالاضحیٰ اور عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے نیز سعید بن مسیب کا قول ہے کہ عید الفطر کی تین سنتیں ہیں:’’عید گاہ کی طرف پیدل جانا؟ نمازعید کی ادائیگی کے لیے جانے سے پہلے کوئی چیز کھانا اور نماز عید کے لیے غسل کرنا۔‘‘ نیز امام ترمذی نے حضرت علی سے مروی روایت کہ عید گاہ کی طرف پیدل جانا سنت ہے کوحسن قرار دیا ہے اورمزیدلکھاہے کہ اس حدیث پر اکثر اہل علم کاعمل ہے۔ بنابریں معلوم ہوا کہ عید گاہ کی طرف پیدل جانا کم از کم مستحب ضرور ہے تاہم ضرورت کے پیش نظر سواری پر سوار ہو کر بھی جایا جا سکتا ہے۔ والله أعلم. مزید تفصیل کے لیے دیکھیے :(ارواء الغليل:3/103۔104)خواتین کا عید گاہ میں جانا: عید کے موقع پر خواتین اسلام کو بھی اہل اسلام کی دعا میں شرکت کی تاکید کی گئی ہے۔ جو عورتیں نماز نہیں پڑھ سکتیں انھیں بھی حاضری کا حکم دیا گیا ہے۔ مزید یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر کسی عورت کے پاس اوڑھنی نہیں ہے تو وہ کسی اور عورت کی اوڑھنی میں لپٹ جائے اور اس طرح دو عورتیں ایک چادر میں لپٹ کر عیدگاہ پہنچیں ہیں۔ (صحیح البخاري العيدين، حدیث:98):مزید یکھیے(سنن النسائي صلاة العيدين حديث:1559اور اس کے فائدعیدگاه یا کھلے میدان میں عید پڑهنا: نماز عید کا اہتمام عید گاہ میں ہونا چاہیے اگر عیدگاہ نہ ہو تو کھلے میدان میں عید کا انتظام کرنا چاہیے۔ بلاعذر بعد میں نماز پر ادا کرنا درست نہیں البتہ بارش تیزآندھی یاقسم کی شرعی عذر کی صورت میں نماز عید میں ادا کی جاسکتی ہے۔نماز عید کا وقت: نماز عید سورج طلوع ہونے کے بعد جلد از جلد ادا کرنی چاہیے۔ دیگر امور کی نسبت نبی اکرم ﷺ نماز عید سب سے پہلے ادا کرتے تھے۔ حضرت براء بن عازب ؓبھی بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے یوم نخر کے دن ہمیں خطاب فرمایا کہ ہم آج کے دن سب سے پہلا کام یہ کریں گے کہ نماز پڑھیں گئے (نمازسے) فارغ ہو کرقربانی کریں گے۔ جس نے اسی طرح کیا اس نےہماری سنت پرعمل کیا۔ (صحیح البخاري العيدين حديث:968)جناب یزید بن خمیر الرحبی بیان کرتے ہیں کہ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن بسر تشریف لائے اور امام کے تاخیر کر دینے کو انھوں نے ناپسند کیا اور کہا: ہم تو اس وقت فارغ ہو چکے ہوتے تھے یعنی اشراق کے وقت . (سنن أبي داود الصلاة حديث:1135) اس لیے زیاده تاخیر مناسب نہیں۔طریقہ نماز: طریقہ نماز میں درج ذیل امور پر بحث ہوگی: 1۔اذ ان واقامت. 2۔ تعداد رکعات 3۔سورتوں کا تعین ۔ 4۔زائد تکبیرات۔اذ ان واقامت کا حکم: نماز عید کے لیے اذان اور اقامت نہیں کہی جاتی۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓبیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺکے ساتھ عید کی نماز میں حاضر ہوا آپ نے نماز عید خطبےسے قبل بغیر اذان و اقامت کے پڑھائی...۔ (صحیح مسلم العيدين حديث:(4)885)معلوم ہوا نماز عید کے لیے اذان و اقامت ثابت نہیں۔تعداد رکعات: عیدین کی نماز دو دو رکعت ہے۔ حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ عید الاضحیٰ کی نماز دو رکعت ہے عیدالفطر کی نماز دو رکعت ہے‘ مسافر کی نماز دو رکعت ہے اور جمعے کی نماز بھی دو رکعت ہے۔ یہ تمام نمازیں نبی اکرم ﷺکی زبانی مکمل ہیں۔ ان میں کوئی کی اونقص نہیں۔ (سنن النسائي صلاة العيدين حديث:1567)سورتوں کا تعین: حضرت عمر بن خطاب نے ابوواقد لیثی سے سوال کیا کہ رسول اللہﷺ عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کی نمازوں میں کون سی سورتیں پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: سورہ (ق والقرآن المجید) اور (اقتربت الساعة وانشق القمره) (صحيح مسلم العيدين حديث:(14۔891) جبکہ ایک روایت میں سورہ اعلی اور سورة غاشیہ پڑھنے کا ذکر ملتا ہے بنابریں عیدین میں مقتدیوں یا موقع محل کالحاظ رکھتے ہوئے دونوں حدیثوں میں سے کسی ایک پربھی کیا جاسکتا ہے۔ والله أعلم.زائد تکبیرات: نماز عید میں بارہ تکبیریں زائد ہیں۔ سات پہلی رکعت میں اور پانچ دوسری میں۔ ونوں رکعتوں میں قرات تکبیرات کے بعد ہوگی۔ حضرت عبدالله بن عمرو بن عاص بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:”عید الفطر کی نماز کی پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ تکبیریں ہیں اور دونوں رکعتوں میں قراءت تکبیرات کے بعد ہے۔(سنن أبي داود الصلاة حديث:1151) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول ﷺعید الفطر اور عید الاضحیٰ میں پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة حديث:1149)زائد تکبیرات کے ساتھ رفع اليدين: تکبیرات عیدین کے ساتھ رفع الیدین کرنے کی بابت رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام سے کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔ امام ابن حزم اس کی بابت لکھتے ہیں( لم يصح قط أن رسول اللهﷺ رفع فيه يدي) رسول اللہﷺ سے قطعایہ ثابت نہیں کہ آپ نے ان تکبیروں میں رفع الیدین کیا ہے محقق عصر شیخ البانی اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ مسنون نہیں ہے۔ (ارواء الغليل :3/112)ہم تکبیرات عیدین کے ساتھ رفع الیدین کرنے کی بابت ائمہ کے اقوال ضرور ملتے ہیں۔ عطاء بن ابی رباح سے پوچھا گیا کیا امام نماز عیدین میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں وہ رفع الیدین کرے اور لوگ بھی اسی کے ساتھ ہاتھ اٹھائیں۔ (مصنف عبدالرزاق:3/113) نیز امام مالک اور فرماتے ہیں کہ تکبیرات عیدین کے موقع پر ہاتھ اٹھانے چاہییں اگرچہ میں نے اس کے متعلق کچھ نہیں سنا۔( الفريابي بحواله إرواء الغليل:3/113) اور امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا بھی یہی موقف ہے کہ تکبیرات عیدین میں ہاتھ اٹھانے چاہییں ۔ (الأم:1/237) لہذا ان اقوال کی روشنی میں اگر کوئی تکبیرات عیدین میں رفع الیدین کرتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے اور کوئی نہیں کرتا تو اس کا بھی جوازہے۔ اس سے میں تشدد مناسب نہیں۔والله أعلم.عید کا خطبہ : رسول اللہ ﷺاور دیگرصحابہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ عید کا خطبہ نماز عید کے بعددیا کرتے تھے۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں عید کے دن رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز کے لیے حاضر ہوا۔ آپ نے پہلے نماز پڑھی‘پھر خطبہ دیا۔ (صحیح مسلم العيدين حديث: 4-885)حضرت عبداللہ بن عباس ؓبھی بیان فرماتے ہیں: میں رسول اللہﷺ حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ساتھ عید کی نمازوں میں حاضر ہوا۔ وہ سب نمازعید خطبے سے قبل پڑھتے تھے۔ (صحيح البخاري العيدين حديث:962)منبر کے بغیر خطبہ دینا: نبی اکرمﷺ سے عید گاہ میں منبر لے جانا ثابت نہیں۔ سب سے پہلے مروان اپنے عہد میں عید گاہ میں منبر لے گیا تو ایک صحابی نے انھیں کہا: (یا مروان خالفت السنة! أخرجت المنبر في يوم عيدولم يكن يخرج فيه)اے مروان ! تو نے سنت کی مخالفت کی ہے۔ تم نے عید کے روز منبر نکلوایا ہے جبکہ اس دن یہ نہ نکالا جاتا تھا۔(سنن أبي داود، الصلاة حديث:1140) معلوم ہوا عید گاہ میں منبر لے جانا تکلف اور سنت کی خلاف ورزی ہے البتہ ضرورت کے پیش نظر سواری یا کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا جاسکتا ہے۔خطبہ عیدسننےیا نہ سننے کا اختیار: حضرت عبد اللہ بن سائب سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے عید کی نماز پڑھائی پھر فرمایا: جو آدمی جانا چاہے وہ جاسکتا ہے اور جو خطبہ سننے کے لیے ٹھرنا چاہتاہے وہ ٹھہرے۔(سنن النسائي العيدين حديث:1552) اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ خطبہ عيدسننا واجب نہیں‘ تاہم صحابہ کرام کے عمل اور نبی اکرم ﷺ کاحکم کہ حائضہ اور پردہ نشین عورتیں بھی عید گاہ میں حاضر ہوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ عید سننے کا اہتمام کرنا چاہیے بلاوجہ ان میں ہے پروائی نہ کی جائے۔ والله أعلم.راستہ بدلنا: عید کے دن نماز عید کے لیے ایک راستے سے جانا اور واپسی پر دوسرے راستے سے آنا مسنون عمل ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ عید کے روز (عیدگاه آتے جاتے ہوئے) راستہ تبدیل فرماتے تھے۔ (صحیح البخاري العيدين حديث:986)نماز عید سے پہلے اور بعد میں نوافل پڑھنے کاحکم : حضرت عبدالله بن عباس ؓسے مروی ہے کہ نبیﷺ نے عید کے روز دوہی رکعتیں ادا فرمائیں اس سے پہلے نماز پڑھی نہ بعد میں۔ (صحیح البخاري العيدين حديث:964،وصحيح مسلم العيدين حديث:884) سنن ابن ماجہ کی ایک حدیث میں ہے کہ نبیﷺ نے واپس گھر آ کر دو رکعتیں پڑھیں۔ دیکھیے : (سنن ابن ماجه إقامة الصلوات حديث:1293) ان میں حل او تطبیق کی صورت یہ ہے کہ بالخصوص عید گاہ میں نماز عید سے قبل کچھ پڑھا جاسکتا ہے نہ بعد میں البتہ گھر میں مطلق نوافل پڑھے جا سکتے ہیں کہ ان کاتعلق نماز عید سے نہیں۔والله أعلم.عید کے بعد جمعے کی رخصت: اگرعید جمعے کے روز ہوتو نماز عید ادا کرنے کے بعد لوگوں کو رخصت ہے کہ وہ جمعہ ادا کرنے کے بجائے اپنے ڈیروں وغیرہی میں نماز ظہر ادا کر لیں جمعے کے لیے حاضر نہ ہوں‘ البتہ خطیب کے لیے مستحب یہی ہے کہ وہ جمعہ پڑھائے۔ حضرت معاویہ نے حضرت زید بن ارقم سے پوچھا: کیا آپ عیدین میں رسول اللہﷺ کے ساتھ حاضر ہوئے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں آپ نے دن کے آغاز میں عید کی نماز پڑھی پھر آپ نے جمعے کی رخصت دے دی۔ (سنن النسائي العيدين حديث:1592)کھیل کود : عید کے دن خوشی کا اظہار کرنا‘ چھوٹے بچیوں کے لئے‘دف وغیرہ بجا کرملی نغمے اور ایسے اشعار پڑھنا جو اسلای روح کے منافی نہ ہوں اور شرک کی آمیزش سے پاک ہوں جائز ہے۔ اسی طرح ایسی کھیل کود جوجنگی تربیت یا جسمانی صحت کے لیے مفید ہو کھیلنا درست ہے تفصیل آگے احادیث میں آرہی ہے۔
حضرت شعبی بیان کرتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب ؓ نے ہمیں مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے پاس بیان کیا کہ نبی ﷺ نے ہمیں عیدالاضحیٰ کے دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”آج کے دن ہم سب سے پہلے جس چیز کی ابتدا کریں گے وہ یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں گے، پھر (قربانی) ذبح کریں گے۔ جو شخص ایسا کرے گا، وہ ہماری سنت پر عمل کرے گا اور جو اس (نماز پڑھنے) سے پہلے ذبح کرے گا تو یہ (قربانی نہیں بلکہ) اس نے اپنے گھر والوں کے لیے گوشت تیار کیا ہے۔“ اتفاقاً حضرت ابوبردہ بن دینار نے (نماز عید سے قبل) قربانی ذبح کردی تھی۔ وہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک جزعہ (نوجوان بکرا) جو دو دانتے سے (جسمانی طور پر) بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ”چلو اسے ذبح کردو لیکن ایسا جانور تیرے علاوہ کسی سے کفایت نہ کرے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”کفایت نہ کرے گا“ کیونکہ قربانی کے لیے بکرے، گائے اور اونٹ کا دودانتا (جس کے سامنے کے دو دانت گر چکے ہوں) ہونا ضروری ہے۔ حدیث میں مذکورہ جزعہ (بکرا) دو دانتا، یعنی مسنہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے کم عمر ہوتا ہے، لہٰذا یہ کفایت نہیں کرے گا۔ بکرے کے جذعے کی رخصت خاص ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لیے تھی جیسا کہ حدیث میں ہے۔ جبکہ دنبے اور چھترے کا جذعہ جائز ہے، کسی فرد سے اس کی تخصیص نہیں۔ بنا بریں جس جانور کی قربانی کرنا بعد والوں کے لیے جائز نہیں، خواہ مجبور ہی کیوں نہ ہوں، وہ بکرے کے جذعے کی قربانی ہے۔ احادیث کے مجموعے سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) حدیث میں جذعہ سے مراد بکرے کا جذع ہے۔ بھیڑ کا جذع عموماً ایک سال کا ہوتا ہے، جمہور کی یہی رائے ہے۔ بعض نے چھ ماہ کے بھیڑ کے بچے کو بھی جذعہ کہا ہے مگر جمہور کی رائے کے مقابلے میں یہ موقف مرجوح ہے۔ واللہ أعلم۔ اس مسئلے کی تفصیل کے لیے اسی کتاب کی کتاب الضحایا کو دیکھیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
شعبی (عامر بن شراحیل) کہتے ہیں کہ ہم سے براء بن عازب ؓ نے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے پاس بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے قربانی کے دن خطبہ دیا، تو آپ نے فرمایا: ”اپنے اس دن میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر قربانی کریں، تو جس نے ایسا کیا تو اس نے ہماری سنت کو پا لیا، اور جس نے اس سے پہلے ذبح کر لیا تو وہ محض گوشت ہے جسے وہ اپنے گھر والوں کو پہلے پیش کر رہا ہے“ ، ابوبردہ ابن دینار (نماز سے پہلے ہی) ذبح کر چکے تھے، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک سال کا ایک دنبہ ہے، جو دانت والے دنبہ سے بہتر ہے، تو آپ نے فرمایا: ”اسے ہی ذبح کر لو، لیکن تمہارے بعد اور کسی کے لیے یہ کافی نہیں ہو گا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Al-Bara' bin 'Azib narrated to us by one of the pillars of the masjid: "The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) delivered a Khutbah on the day of An-Nahr and said: 'The first thing we start with on this day of ours is the prayer, then we offer sacrifice. Whoever does that, he has followed our sunnah, but whoever slaughtered (his sacrifice) before the (prayer), that is just meat that he gave to his family. Abu Burdah bin Niyar had slaughtered his sacrifice and he said: 'O Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم), I have a Jadha'ah that is better than a Musinnah.' He said: 'Slaughter it (as a sacrifice), but that will not be sufficient for anyone else (as a sacrifice) after you.'"