Sunan-nasai:
Description Of Wudu'
(Chapter: Wudu’ After Defecating And Urinating)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
158.
حضرت زربن حبیش سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک آدمی کے پاس گیا جنھیں صفوان بن عسال کہا جاتا تھا۔ میں (انتظار میں) ان کے دروازے پر بیٹھ گیا۔ آپ باہر تشریف لائے تو پوچھا: کیسے آئے ہو؟ میں نے کہا: طلب علم کے لیے۔ انھوں نے فرمایا: فرشتے طالب علم کے طلب علم پر رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پر جھکاتے ہیں۔ پھر انھوں نے پوچھا: تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: موزوں کے بارے میں۔ انھوں نے فرمایا: جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (کسی سفر میں) ہوتے تھے تو آپ ہمیں فرماتے تھے کہ ہم تین دن تک پیشاب یا پاخانے اور نیند کی وجہ سے موزے نہ اتاریں لیکن جنابت کی وجہ سے اتارنے ہوں گے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب، پاخانے اور نیند کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، نیا کرنا پڑے گا، ورنہ موزے اتارنے کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں۔ (2) بعض کا کہنا ہے کہ فرشتوں کے پر جھکانے سے مراد تعظیم و احترام ہے، جیسے قرآن مجید میں ہے: ﴿واخفض لھما جناح الذل من الرحمة﴾(بنی اسرآءیل ۲۴:۱۷)’’اور ان دونوں (والدین) کے لیے نیاز مندی سے عاجزی کا بازو جھکائے رکھ۔‘‘ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث میں طالب علم کا شرف و مرتبہ بھی بیان ہوا ہے کہ فرشتے اس کے لیے پر بچھاتے ہیں۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم سے سوال پوچھنے کے لیے ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت : فجعله من مند ابن مسعود وهو شاذ وفي الطريق الى المنهال الصعق بن حزن وهو صدوق يهم كما قال الحافظ . وللحديث طريق آخر من رواية أبي روق عطية بن الحارث قال : ثنا أبو الغريف عبد الله بن خليفة عن صفوان بن عسال دمون الاستثناء أيضا . أخرجه أحمد والطحاوي والبيهقي وسنده ضعيف أبو الغريف هذا قال أبو حاتم " ليس بالمشهور قد نكلوا فيه وهو شيخ من نظراء أصبغ بن نباتة " كما في " الجرح " ( ج 2 / 2 / 313 ) وأصبغ عنده لين الحديث
( تنبيه ) : في حديث عاصم عند جميع من ذكرناهم من المخرجين - حاشا المعجم الصغير - زيادة في آخره . بلفظ : " ولكن من غائط وبول ونوم " فلا أدري لماذا لم يذكرها المصنف ثم رأيته ذكرها - لوحدها بعد حديث . نعم لم تقع هذه الزيادة حق في رواية معمر عن عاصم عند أحمد ولكنها ثابتة في روايته عند الدارقطني كما هي ثابتة عند كل من رواه . عن عاصم . ( ننبيه ثان ) : إدعى ابن تيمية أن لفظة " ونوم " مدرجة في هذا الحديث ( 1 ) وهي دعوى مردودة فهي ثابتة عند الجميع ثبوت ما قبلها ولم أجد من سبقه إلى هذه الدعوى عل خطأها . ومن فوائد هذه الزيادة انها تدل على أن النوم مطلقا ناقض للوضوء كالغائط والبول وهو مذهب جماعة من العلماء منهم الحنابلة كما ذكره المؤلف ( ص 34 ) وهو الصواب
( 1 ) ذكر ذلك في بعض رسائله المنسورة في " شذرات البلاتين " ( وهو مخترعات الشيخ حامد رحمه الله )
حضرت زربن حبیش سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک آدمی کے پاس گیا جنھیں صفوان بن عسال کہا جاتا تھا۔ میں (انتظار میں) ان کے دروازے پر بیٹھ گیا۔ آپ باہر تشریف لائے تو پوچھا: کیسے آئے ہو؟ میں نے کہا: طلب علم کے لیے۔ انھوں نے فرمایا: فرشتے طالب علم کے طلب علم پر رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پر جھکاتے ہیں۔ پھر انھوں نے پوچھا: تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: موزوں کے بارے میں۔ انھوں نے فرمایا: جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (کسی سفر میں) ہوتے تھے تو آپ ہمیں فرماتے تھے کہ ہم تین دن تک پیشاب یا پاخانے اور نیند کی وجہ سے موزے نہ اتاریں لیکن جنابت کی وجہ سے اتارنے ہوں گے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب، پاخانے اور نیند کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، نیا کرنا پڑے گا، ورنہ موزے اتارنے کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں۔ (2) بعض کا کہنا ہے کہ فرشتوں کے پر جھکانے سے مراد تعظیم و احترام ہے، جیسے قرآن مجید میں ہے: ﴿واخفض لھما جناح الذل من الرحمة﴾(بنی اسرآءیل ۲۴:۱۷)’’اور ان دونوں (والدین) کے لیے نیاز مندی سے عاجزی کا بازو جھکائے رکھ۔‘‘ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث میں طالب علم کا شرف و مرتبہ بھی بیان ہوا ہے کہ فرشتے اس کے لیے پر بچھاتے ہیں۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم سے سوال پوچھنے کے لیے ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زر بن حبیش بیان کرتے ہیں کہ میں ایک آدمی کے پاس آیا جسے صفوان بن عسال ؓ کہا جاتا تھا، میں ان کے دروازہ پر بیٹھ گیا، تو وہ نکلے، تو انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ میں نے کہا: علم حاصل کرنے آیا ہوں، انہوں نے کہا: طالب علم کے لیے فرشتے اس چیز سے خوش ہو کر جسے وہ حاصل کر رہا ہو اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، پھر پوچھا: کس چیز کے متعلق پوچھنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: دونوں موزوں کے متعلق کہا: جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی سفر میں ہوتے تو آپ ﷺ ہمیں حکم دیتے کہ ہم انہیں تین دن تک نہ اتاریں، الاّ یہ کہ جنابت لاحق ہو جائے، لیکن پاخانہ، پیشاب اور نیند (تو ان کی وجہ سے نہ اتاریں)۔
حدیث حاشیہ:
یعنی اگر جنابت لاحق ہو جائے تو اتارنے ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Zirr bin Hubaish narrated: “I came to a man called Safwan bin ‘Assal and sat at his door. He came out and said: ‘What do you want?’ I said: ‘I am seeking knowledge.’ He said: ‘The angels lower their wings for the seeker of knowledge out of pleasure at what he is seeking.’ He said: ‘What do you want to know about?’ I said: ‘About the Khuffs.’ He said: ‘When we were with the Messenger of Allah (ﷺ) on a journey, he told us not to take them off for three days except in the case of Janabah, but not in the case of defecation, urinating or sleep.” (Hasan)