کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
(
باب: نمازوتر کاحکم دیا گیا ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
(Chapter: The command to pray witr)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1675.
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز وتر پڑھی، پھر آپ نے فرمایا: ”اے قرآن والو! وتر پڑھا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ وتر (اکیلا) ہے اور وتر کو پسند فرماتا ہے۔“
تشریح:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے اوریہی رائے اقرب الی الصلوۃ معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام احمد: ۲ ؍۴۱۳، وصحیح سنن أبي داود (مفصل) للألبانی: ۵؍۱۵۹، رقم الحدیث: ۱۲۷۴، وذخیرة العقبٰی شرح سنن النسائي ۱۸؍۲۸۔۳۳) (2) وتر عربی میں طاق عدد کو کہتے ہیں جو دو پر تقسیم نہ ہو۔ اصطلاح میں رات کی نماز کو کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے بارے میں حکم ہے کہ اسے مجموعی طور پر طاق عدد میں پڑھا جائے۔ تین یا پانچ یا سات یا نو یا گیارہ۔ (3) رات کی نماز فرض نہیں بلکہ نفل ہے، اس لیے وتر فرض ہے نہ واجب بلکہ نفل مؤکد ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر بھی وتر پڑھ لیا کرتے تھے جبکہ فرائض یا واجبات کی ادائیگی کے لیے نیچے اترجاتے، اس سے بھی معلوم ہوا کہ وتر واجب نہیں۔ باقی رہا حکم تو حکم ہر جگہ وجوب کے لیے نہیں ہوتا۔ بعض جگہ تاکید یا استحباب کے لیے بھی ہوتا ہے بلکہ جواز کے لیے بھی آجاتا ہے، مثلاً: (واذا حللتم فاصطادوا) (المائدہ۵:۲) ”جب تم احرام کھول لو تو شکار کرو۔“ یعنی شکار کرسکتے ہو۔ کیونکہ کسی فقیہ اور محدث کے نزدیک بھی احرام کے بعد شکار کرنا ضروری بلکہ مستحب بھی نہیں، نیز اسی حدیث کے آخری الفاظ ”پسند فرمات ہے“ بھی وتر کے استحباب وتاکید پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ (4) ”اے قرآن والو!“ مراد مسلمان ہیں کہ ان کی کتاب قرآن ہے۔ یا قرآن کے حفاظ مراد ہیں، یعنی حفاظ کو رات کی نماز پڑھنی چاہیے کیونکہ یہ حفظ قرآن کا حق ہے، ورنہ حفظ کا اور کیا فائدہ ہے؟ نیز اس طرح حفظ قائم رہے گا ورنہ بھول جانے کا خدشہ ہے۔ اس صورت میں وتر سے مراد نماز تہجد ہوگی جو تعداد میں زیادہ اور قراءت میں طویل ہوتی ہے اور یہ حفاظ کے لائق ہے۔ باقی رہے کم از کم وتر تو وہ سب مسلمانوں کے لیے مؤکد ہیں۔ ان کی تعداد تین یا ایک ہے۔ (5) ”اللہ تعالیٰ وتر (ایک) ہے“ یعنی یکتا ہے جس میں کسی لحاظ سے تجزی، دوئی یا شراکت نہیں، نہ وہ قابل تقسیم ہے، اس لیے رات کی نماز کو زیادہ محبوب رکھتا ہے کیونکہ وہ بھی تو دوئی کو قبول نہیں کرتی۔ (6) اللہ تعالیٰ کی محبت کو بعض لوگوں نے ثواب کے معنیٰ میں لیا ہے مگر اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔ محبت اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات انسانوں یا کسی بھی مخلوق کی صفات جیسی نہیں کہ ان کے مشابہ قرار دیا جاسکے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرح بے مثال ہیں۔ (7) وتر پڑھنے والے سے اللہ تعالیٰ خصوصی محبت فرماتا ہے۔
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز وتر پڑھی، پھر آپ نے فرمایا: ”اے قرآن والو! وتر پڑھا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ وتر (اکیلا) ہے اور وتر کو پسند فرماتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے اوریہی رائے اقرب الی الصلوۃ معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام احمد: ۲ ؍۴۱۳، وصحیح سنن أبي داود (مفصل) للألبانی: ۵؍۱۵۹، رقم الحدیث: ۱۲۷۴، وذخیرة العقبٰی شرح سنن النسائي ۱۸؍۲۸۔۳۳) (2) وتر عربی میں طاق عدد کو کہتے ہیں جو دو پر تقسیم نہ ہو۔ اصطلاح میں رات کی نماز کو کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے بارے میں حکم ہے کہ اسے مجموعی طور پر طاق عدد میں پڑھا جائے۔ تین یا پانچ یا سات یا نو یا گیارہ۔ (3) رات کی نماز فرض نہیں بلکہ نفل ہے، اس لیے وتر فرض ہے نہ واجب بلکہ نفل مؤکد ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر بھی وتر پڑھ لیا کرتے تھے جبکہ فرائض یا واجبات کی ادائیگی کے لیے نیچے اترجاتے، اس سے بھی معلوم ہوا کہ وتر واجب نہیں۔ باقی رہا حکم تو حکم ہر جگہ وجوب کے لیے نہیں ہوتا۔ بعض جگہ تاکید یا استحباب کے لیے بھی ہوتا ہے بلکہ جواز کے لیے بھی آجاتا ہے، مثلاً: (واذا حللتم فاصطادوا) (المائدہ۵:۲) ”جب تم احرام کھول لو تو شکار کرو۔“ یعنی شکار کرسکتے ہو۔ کیونکہ کسی فقیہ اور محدث کے نزدیک بھی احرام کے بعد شکار کرنا ضروری بلکہ مستحب بھی نہیں، نیز اسی حدیث کے آخری الفاظ ”پسند فرمات ہے“ بھی وتر کے استحباب وتاکید پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ (4) ”اے قرآن والو!“ مراد مسلمان ہیں کہ ان کی کتاب قرآن ہے۔ یا قرآن کے حفاظ مراد ہیں، یعنی حفاظ کو رات کی نماز پڑھنی چاہیے کیونکہ یہ حفظ قرآن کا حق ہے، ورنہ حفظ کا اور کیا فائدہ ہے؟ نیز اس طرح حفظ قائم رہے گا ورنہ بھول جانے کا خدشہ ہے۔ اس صورت میں وتر سے مراد نماز تہجد ہوگی جو تعداد میں زیادہ اور قراءت میں طویل ہوتی ہے اور یہ حفاظ کے لائق ہے۔ باقی رہے کم از کم وتر تو وہ سب مسلمانوں کے لیے مؤکد ہیں۔ ان کی تعداد تین یا ایک ہے۔ (5) ”اللہ تعالیٰ وتر (ایک) ہے“ یعنی یکتا ہے جس میں کسی لحاظ سے تجزی، دوئی یا شراکت نہیں، نہ وہ قابل تقسیم ہے، اس لیے رات کی نماز کو زیادہ محبوب رکھتا ہے کیونکہ وہ بھی تو دوئی کو قبول نہیں کرتی۔ (6) اللہ تعالیٰ کی محبت کو بعض لوگوں نے ثواب کے معنیٰ میں لیا ہے مگر اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔ محبت اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات انسانوں یا کسی بھی مخلوق کی صفات جیسی نہیں کہ ان کے مشابہ قرار دیا جاسکے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرح بے مثال ہیں۔ (7) وتر پڑھنے والے سے اللہ تعالیٰ خصوصی محبت فرماتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وتر پڑھی، پھر فرمایا: ”اے اہل قرآن! وتر پڑھو۱؎ کیونکہ اللہ تعالیٰ وتر ہے، اور وتر کو محبوب رکھتا ہے۔“ ۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس حدیث میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو اہل قرآن کہا گیا ہے، یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے بلکہ یہاں اہل قرآن کا مطلب شریعت اسلامیہ کے پیروکار ہیں، اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعہ کا نام ہے نہ کہ حدیث کے بغیر صرف قرآن کا۔ ۲؎ : طیبی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں وتر سے مراد قیام اللیل ہے، کیونکہ وتر کا اطلاق قیام اللیل پر بھی ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ali, may Allah (SWT) be pleased with him, said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "O people of the Qur'an, pray witr, for Allah, the Mighty and Sublime, is Witr (One) and loves Al-Witr (the odd numbered).'"