تشریح:
(1) یہ دوروایتیں ایک ہی حدیث ہیں، لہٰذا الفاظ کی کمی بیشی کا تدارک ایک دوسرے سے ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اس روایت کی اور اسانید بھی ہیں جن میں کچھ مزید الفاظ بھی ہیں، لہٰذا ان میں سے جو الفاظ صحیح سند کے ساتھ مروی ہیں وہ بھی قبول کیے جائیں گے۔
(2) مستدرک حاکم میں صراحت ہے کہ آپ نے فرمایا: کہ میں وتر کی آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یہ دعا پڑھوں۔ دیکھیے: (المستدرك الحاكم: ۳؍۱۷۲) لیکن ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (اصل صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم للألباني:۳؍۹۷۱، ۹۷۲) اس روایت کی بنیاد پر بعض علماء قنوتِ وتر کو رکوع کے بعد پڑھنا راجح سمجھتے ہیں جبکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ روایت میں صراحت ہے کہ آپ نے صرف قنوتِ نازلہ رکوع کے بعد پڑھی ہے اور قنوتِ وتر قبل از رکوع، اس لیے دوسروں کے نزدیک قنوت وتر کا رکوع سے پہلے پڑھنا راجح ہے۔ یہی بات زیادہ صحیح ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الوتر، حدیث:۱۰۰۲، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث:۶۷۷)
(3) دعائے قنوت میں نستغفرك ونتوب الیك کے الفاظ بھی مشہور ہیں، لیکن یہ الفاظ حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ملتے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (القول المقبول فی شرح و تعلیق صلاة الرسول، حدیث:۵۸۶) اس لیے ان کا پڑھنا صحیح نہیں۔ یہ الفاظ صرف ’’حصن حصین‘‘ میں ہیں جو حدیث کی کتاب نہیں ہے۔
(4) وصلی اللہ علی النبی محمد کے الفاظ کے علاوہ باقی تمام الفاظ اوپر والی روایت (۱۷۴۶) میں موجود ہیں جو کہ سنداً صحیح ہے۔ وصلی اللہ علی النبي محمد کے الفاظ مرفوعاً ضعیف ہیں، البتہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے موقوفاً قنوت وتر میں ان کا پڑھنا صحیح سند سے ثابت ہے۔ (صحیح ابن خزیمه، حدیث:۱۱۰۰) نیز دوسرے صحابی رسول ابوحلیمہ انصاری رضی اللہ عنہ سے بھی موقوفاً ان کا ثبوت ملتا ہے۔ (فضل الصلاة علی النبي صلی اللہ علیه وسلم، رقم:۱۰۷) لہٰذا ان الفاظ کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم للألباني ، ص:۱۸۰)