کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
(
باب: جو شخص رات کواپنی مقررہ نفل نماز تہجد سےسویا رہا تو وہ کب اس کی ادائیگی کرے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
(Chapter: When should a person who slept and missed reciting his nightly portion of Qur'an make it up)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1792.
حضرت عمر بن خطاب ؓ فرماتے ہیں کہ جس شخص سے رات کی مقررہ (نفل) نماز رہ گئی اور اس نے زوال شمس سے لے کر ظہر کی نماز تک پڑھ لی تو یوں سمجھو کہ وہ نماز اس سے نہیں رہی بلکہ گویا اس نے بروقت پڑھ لی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے بیٹے حمید نے اسے موقوف بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) مقصود یہ ہے کہ آئندہ روایت میں یہی الفاظ حمید کی طرف منسوب ہیں۔ حمید تابعی ہیں اور تابعی کے قول و فعل کو مقطوع کہا جاتا ہے، گویا یہاں موقوف سے مقطوع مراد ہے۔ (2) ہمارے نسخے کے مطابق عبارت کا بظاہر وہی مفہوم ہے جو ذکر ہوا۔ (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: (۱۷۸/۱۸) کے نسخے میں حمید بن عبدالرحمٰن حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، اگر یہ اضافہ درست ہے تو پھر موقوف اپنے اصطلاحی معنیٰ میں مستعمل ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) ضروری نہیں نماز ہی مراد ہو بلکہ قرآن مجید یا ذکر و درود بھی مراد ہو سکتا ہے اور اس کا حکم بھی یہی ہے۔ (4) اس روایت میں زوال شمس کا لفظ کسی راوی کی غلطی ہے، طوع شمس چاہیے جیسے پہلی روایات میں ہے۔ (5) باب کے تحت ان تین روایات میں فرق یہ ہے کہ پہلی اور دوسری روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے اور آخری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اور آئندہ روایت صحابی کی بجائے تابعی (حمید) کی طرف منسوب ہے۔ پہلی کو مرفوع دوسری کو موقوف اور تیسری کو مقطوع کہتے ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب ؓ فرماتے ہیں کہ جس شخص سے رات کی مقررہ (نفل) نماز رہ گئی اور اس نے زوال شمس سے لے کر ظہر کی نماز تک پڑھ لی تو یوں سمجھو کہ وہ نماز اس سے نہیں رہی بلکہ گویا اس نے بروقت پڑھ لی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے بیٹے حمید نے اسے موقوف بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مقصود یہ ہے کہ آئندہ روایت میں یہی الفاظ حمید کی طرف منسوب ہیں۔ حمید تابعی ہیں اور تابعی کے قول و فعل کو مقطوع کہا جاتا ہے، گویا یہاں موقوف سے مقطوع مراد ہے۔ (2) ہمارے نسخے کے مطابق عبارت کا بظاہر وہی مفہوم ہے جو ذکر ہوا۔ (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: (۱۷۸/۱۸) کے نسخے میں حمید بن عبدالرحمٰن حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، اگر یہ اضافہ درست ہے تو پھر موقوف اپنے اصطلاحی معنیٰ میں مستعمل ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) ضروری نہیں نماز ہی مراد ہو بلکہ قرآن مجید یا ذکر و درود بھی مراد ہو سکتا ہے اور اس کا حکم بھی یہی ہے۔ (4) اس روایت میں زوال شمس کا لفظ کسی راوی کی غلطی ہے، طوع شمس چاہیے جیسے پہلی روایات میں ہے۔ (5) باب کے تحت ان تین روایات میں فرق یہ ہے کہ پہلی اور دوسری روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے اور آخری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اور آئندہ روایت صحابی کی بجائے تابعی (حمید) کی طرف منسوب ہے۔ پہلی کو مرفوع دوسری کو موقوف اور تیسری کو مقطوع کہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں جس کا رات کا وظیفہ چھوٹ جائے، اور وہ سورج ڈھلنے سے لے کر نماز ظہر تک کسی بھی وقت اسے پڑھ لے، تو اس کا وظیفہ نہیں چھوٹا، یا گویا اس نے اپنا وظیفہ پا لیا۔ اسے حمید بن عبدالرحمٰن نے موقوفاً (یعنی: مقطوعا) روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abdur-Rahman bin Abdul-Qari that Umar bin Al-Khattab said: "Whoever misses his nightly portion and recites it from the time when the sun passes its zenith until Zuhr prayer, then he did not miss it, or it is as if he caught up with it."