تشریح:
مقصد یہ ہے کہ سوگ اور جزع فزع ہمیشہ تو نہیں رہ سکتے، آخر کار وہ ختم ہو ہی جائیں گے، مگر اسے صبر نہیں کہتے، صبر تو یہ ہے کہ انسان مصیبت کے ابتدائی وقت میں اپنے آپ کو شرعی احکام اور انسانی وقار کا پابند رکھے، اور یہی مشکل کام ہے، ثواب بھی اسی صبر کا ہے، رو پیٹ کر صبر کیا تو وہ کیا صبر ہے؟ بالآخر تو صبر کرنا ہی پڑتا ہے، لیکن یہ شریعت والا صبر نہیں ہے، یہ تو مجوری ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ اجر و ثواب صرف اسی صبر میں ہے جو آزمائش اور غم کے وقت کیا جائے، نہ کہ اس کے بعد والے صبر پر۔