کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
(
باب: کافر اسلام لانے کا ارادہ کرے تو پہلے غسل کر(پھر اسلام لائے)
)
Sunan-nasai:
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
(Chapter: The Disbeliever Performing Ghusl First When He Wants To Accept Islam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
189.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ثمامہ بن اثال حنفی ؓ مسجد سے قریب ایک جمع شدہ پانی کی طرف گئے اور غسل کیا، پھر مسجد میں داخل ہوئے اور کہا: [أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ] ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ اے محمد! اللہ کی قسم! اس سے پہلے روئے ارض پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے بڑھ کر مجھے ناپسند نہیں تھا مگر اب آپ کا چہرہ تمام چہروں سے مجھے محبوب ترین ہوگیا ہے، نیز آپ کے سوار مجھے پکڑ لائے ہیں جبکہ میں عمرے کے ارادے سے جا رہا تھا۔ اب آپ کا کیا فرمان ہے؟ آپ نے اسے (مبارک باد اور) خوش خبری دی اور اسے عمرہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ روایت مختصر ہے۔
تشریح:
(۱) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں یہ واقعہ زیادہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے، اس کے مقابلے میں سنن نسائی کی روایت مختصر ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۴۳۷۲، و صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: ۱۷۶۴) (۲) غسل تو اسلام لانے کے بعد ہی کرنا چاہیے کیونکہ کافر کا غسل معتبر نہیں مگر جب انسان اسلام لانے کا ارادہ کرلے تو حقیقتاً دلی طور پر مسلمان بن جاتا ہے، صرف اعلان باقی ہوتا ہے، لہٰذا یہ غسل شرعی طور پر درست ہوگا، ہاں بعد میں شہادتینن کا اقرار اور صرف اس کا اعلان ہی باقی رہ جاتا ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ (۳) نیک کام کی نذر یا نیک کام کا آغاز کفر کی حالت میں کیا ہو تو اسلام لانے کے بعد اسے پورا کرنا مزید مؤکد ہو جاتا ہے۔ (۴) کافر کا مسجد میں داخل ہونا جائز ہے۔ (۵) کافر کو قید کرنا، پھر بغیر فدیے کے اسے چھوڑنا جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : . سكت عليه الحاكم ثم الذهبي وإسناده حسن.
صحيح أبي داود ( 2402 )
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ثمامہ بن اثال حنفی ؓ مسجد سے قریب ایک جمع شدہ پانی کی طرف گئے اور غسل کیا، پھر مسجد میں داخل ہوئے اور کہا: [أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ] ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ اے محمد! اللہ کی قسم! اس سے پہلے روئے ارض پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے بڑھ کر مجھے ناپسند نہیں تھا مگر اب آپ کا چہرہ تمام چہروں سے مجھے محبوب ترین ہوگیا ہے، نیز آپ کے سوار مجھے پکڑ لائے ہیں جبکہ میں عمرے کے ارادے سے جا رہا تھا۔ اب آپ کا کیا فرمان ہے؟ آپ نے اسے (مبارک باد اور) خوش خبری دی اور اسے عمرہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ روایت مختصر ہے۔
حدیث حاشیہ:
(۱) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں یہ واقعہ زیادہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے، اس کے مقابلے میں سنن نسائی کی روایت مختصر ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۴۳۷۲، و صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: ۱۷۶۴) (۲) غسل تو اسلام لانے کے بعد ہی کرنا چاہیے کیونکہ کافر کا غسل معتبر نہیں مگر جب انسان اسلام لانے کا ارادہ کرلے تو حقیقتاً دلی طور پر مسلمان بن جاتا ہے، صرف اعلان باقی ہوتا ہے، لہٰذا یہ غسل شرعی طور پر درست ہوگا، ہاں بعد میں شہادتینن کا اقرار اور صرف اس کا اعلان ہی باقی رہ جاتا ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ (۳) نیک کام کی نذر یا نیک کام کا آغاز کفر کی حالت میں کیا ہو تو اسلام لانے کے بعد اسے پورا کرنا مزید مؤکد ہو جاتا ہے۔ (۴) کافر کا مسجد میں داخل ہونا جائز ہے۔ (۵) کافر کو قید کرنا، پھر بغیر فدیے کے اسے چھوڑنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ثمامہ بن اثال حنفی ۱؎ مسجد نبوی کے قریب پانی کے پاس آئے، اور غسل کیا، پھر مسجد میں داخل ہوئے اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں، اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، اے محمد! اللہ کی قسم میرے نزدیک روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرہ سے زیادہ ناپسندیدہ نہیں تھا، اور اب آپ کا چہرہ میرے لیے تمام چہروں سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو گیا ہے، اور آپ کے گھوڑ سواروں نے مجھے گرفتار کر لیا ہے، اور حال یہ ہے کہ میں عمرہ کرنا چاہتا ہوں تو اب آپ کا کیا خیال ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بشارت دی، اور حکم دیا کہ وہ عمرہ کر لیں، (یہ حدیث یہاں مختصراً مذکور ہے)۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے ایک فرد تھے، اپنی قوم کے سردار بھی تھے، عمرہ کی ادائیگی کے لیے نکلے تھے، راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گشتی سواروں نے گرفتار کر لیا، اور انہیں مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لے آئے، اور انہیں مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا، تین دن کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا جس سے متاثر ہو کر وہ اسلام لے لائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) said: “Thumamah bin Uthal Al-Hanafi went to fetch some water that was near the Masjid and performed Ghusl, then he entered the Masjid and said: ‘Ashhadu an lailaha ill-Allah wa ashhadu anna Muhammadan ‘abduhu wa rasaluh (I bear witness that there is none worthy of worship except Allah and I bear witness that Muhammad is His slave and Messenger), Muhammad, by Allah! There was no face on the face of the Earth that was more hateful to me than your face, but now your face has become the most beloved of all faces to me. Your cavalry captured me and I want to perform ‘Umrah. What do you think? The Prophet (ﷺ) gave him glad tidings and told him to perform ‘Umrah.”(Sahih)