باب: رمضان المبارک میں احسان اور سخاوت کرنے کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Generosity During The Month of Ramadan)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2096.
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کوئی لعنت ایسی نہیں کی جو قابل ذکر ہو۔ اور جب حضرت جبریل ؑ سے دور کرنے کا وقت قریب ہوتا تو آپ (تیز) چھوڑی ہوئی ہو اسے بڑھ کر سخاوت فرمایا کرتے تھے۔
امام ابوعبدالرحمن (نسائی) ؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت غلط ہے، صحیح روایت یونس بن یزید کی ہے۔ اس حدیث کے راوی نے دو حدیثوں کو گڈمڈ کردیا ہے۔
تشریح:
: (۱) امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ اس حدیث میں لعنت کا ذکر غلطی ہے بلکہ وہ ایک اور روایت ہے۔ راوی نے غلطی سے اس حدیث میں بھی لعنت والے الفاظ ذکر کر دیئے، یونس بن یزید کی روایت میں لعنت کا ذکر نہیں اور یہی درست ہے۔ (۲)’’قابل ذکر ہو‘‘ مطلب یہ ہے کہ لعنت کرنا نبیﷺ کی عادت نہ تھی۔ حقیقت یہی ہے کہ آپ نے شخصی طور پر کبھی کسی پر لعنت کی ہی نہیں۔ بعض انتہائی ناقابل برداشت لوگوں پر ان کی بری صفت ذکر کے لعنت کی ہے، مثلاً: [لَعَنَ اللّٰہُ السَّارِقَ یَسْرِقُ الْبَیْضَۃَ فَتُقْطَعُ یَدُہُ] (صحیح البخاری، الحدود، حدیث: ۶۷۸۳، وصحیح مسلم، الحدود، حدیث: ۱۶۸۷)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2097
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2095
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2098
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کوئی لعنت ایسی نہیں کی جو قابل ذکر ہو۔ اور جب حضرت جبریل ؑ سے دور کرنے کا وقت قریب ہوتا تو آپ (تیز) چھوڑی ہوئی ہو اسے بڑھ کر سخاوت فرمایا کرتے تھے۔
امام ابوعبدالرحمن (نسائی) ؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت غلط ہے، صحیح روایت یونس بن یزید کی ہے۔ اس حدیث کے راوی نے دو حدیثوں کو گڈمڈ کردیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
: (۱) امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ اس حدیث میں لعنت کا ذکر غلطی ہے بلکہ وہ ایک اور روایت ہے۔ راوی نے غلطی سے اس حدیث میں بھی لعنت والے الفاظ ذکر کر دیئے، یونس بن یزید کی روایت میں لعنت کا ذکر نہیں اور یہی درست ہے۔ (۲)’’قابل ذکر ہو‘‘ مطلب یہ ہے کہ لعنت کرنا نبیﷺ کی عادت نہ تھی۔ حقیقت یہی ہے کہ آپ نے شخصی طور پر کبھی کسی پر لعنت کی ہی نہیں۔ بعض انتہائی ناقابل برداشت لوگوں پر ان کی بری صفت ذکر کے لعنت کی ہے، مثلاً: [لَعَنَ اللّٰہُ السَّارِقَ یَسْرِقُ الْبَیْضَۃَ فَتُقْطَعُ یَدُہُ] (صحیح البخاری، الحدود، حدیث: ۶۷۸۳، وصحیح مسلم، الحدود، حدیث: ۱۶۸۷)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ نے کوئی لعنت ایسی نہیں کی جسے ذکر کیا جائے ، ( اور ) جب جبرائیل ؑ کے آپ کو قرآن دور کرانے کا زمانہ آتا تو آپ تیز چلتی ہوئی ہوا سے بھی زیادہ فیاض ہوتے ۔ ابوعبدالرحمٰن ( نسائی ) کہتے ہیں : یہ ( روایت ) غلط ہے ، اور صحیح یونس بن یزید والی حدیث ہے ( جو اوپر گزری ) راوی نے اس حدیث میں ایک ( دوسری ) حدیث داخل کر دی ہے ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “When the month of Ramadan begins, the gates of Paradise are opened and the gates of Hell are shut, and the devils are fettered.” (Sahih)