باب: رمضان المبارک کے چاند کے لیے ایک آدمی کی گواہی کے قبول ہونے کا بیان اور سماک کی حدیث میں سفیان کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Accepting The Testimony Of One Man Concerning The Crescent Moon Of Ramadan)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2112.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نبیﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے چاند دیکھا ہے۔ فرمایا: ”تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد(ﷺ) اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ تو نبیﷺ نے اعلان کر دیا: ”روزہ رکھو۔“
تشریح:
(1) معلوم ہوتا ہے چاند کا دیکھنا اور خبر مل جانا برابر ہیں۔ بشرطیکہ مطلع ایک ہو جیسا کہ پچھلی حدیث کے فوائد میں بیان ہوا۔ (2) ماہ رمضان المبارک کے چاند کے بارے میں جمہور اہل علم کا قول یہی ہے کہ ایک مسلمان کی گواہی کافی ہے جیسا کہ حدیث میں واضح ہے اور یہی صحیح ہے، البتہ بعض فقہاء گواہی کے مدنظر دو مسلمانوں کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں، لیکن عید کے بارے میں ائمہ اربعہ میں اتفاق ہے کہ دو مسلمانوں کی گواہی ضروری ہے کیونکہ عید میں لوگوں کا اپنا مفاد بھی ہوتا ہے، لہٰذا حقوق العباد کی طرح اس میں بھی دو گواہ ہونے چاہئیں جبکہ روزے میں لوگوں کا ذاتی مفاد نہیں، لہٰذا وہاں ایک مسلمان کی خبر کافی ہے کیونکہ یہ خبر ہے شہادت (گواہی) نہیں اورخبر کے لیے ایک معتبر شخص کافی ہے۔ (3) ”تو گواہی دیتا ہے؟“ گویا مسلمان ہونا ضروری ہے، نیز وہ قابل اعتبار بھی ہو، یعنی جھوٹ بولنے میں معروف نہ ہو اور فرائض شرع کا پابند ہو، دین کو مذاق نہ بناتا ہو۔ (4) یہ اور آئندہ تینوں روایات ضعیف ہیں لیکن ابوداؤد (حدیث: ۲۳۴۲) میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی صحیح حدیث موجود ہے، اس لیے حدیث میں بیان کردہ مسئلہ اور دیگر مستنبط مسائل درست ہیں۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
قلت : ووافقه الذهبي وفيه نظر فان سماكأ مضطرب الحديث وقد اختلفوا عليه في هذا فتارة رواه موصولا وتارة مرسلا وهو الذي رجحه جماعة من مخرجيه فقال الترمذي : ( حديث إبن عباس فيه إختلاف وروى سفيان الثوري وغيره عن سماك عن عكرمة عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا وأكثر أصحاب سماك رووا عن سماك عن عكرمة عن النبي مرسلا ) .
قلت : وقد رواه الفضل بن موسى عن سفيان به موصولا بذكر إبن عباس . أخرجه النسائي والدارقطني والحاكم لكن خالفه جماعة منهم عبد الله بن المبارك فرووه عن سفيان مرسلا كما ذكر الترمذي وقال النسائي فيما نقله الزيلعى ( 2 / 443 ) : ( وهذا أولى بالصواب لان سماكا كان يلقن فيتلقن وابن المبارك أثبت
في سفيان من الفضل ) . ونحوه في ( مختصر السنن ) للمنذري ( 3 / 228 ) . ولم أجد قول النسائي هذا في ( سننه الصغرى ) المطبوعة ( فلعله في ( السنن الكبرى ) له .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2113
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2111
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2114
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نبیﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے چاند دیکھا ہے۔ فرمایا: ”تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد(ﷺ) اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ تو نبیﷺ نے اعلان کر دیا: ”روزہ رکھو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) معلوم ہوتا ہے چاند کا دیکھنا اور خبر مل جانا برابر ہیں۔ بشرطیکہ مطلع ایک ہو جیسا کہ پچھلی حدیث کے فوائد میں بیان ہوا۔ (2) ماہ رمضان المبارک کے چاند کے بارے میں جمہور اہل علم کا قول یہی ہے کہ ایک مسلمان کی گواہی کافی ہے جیسا کہ حدیث میں واضح ہے اور یہی صحیح ہے، البتہ بعض فقہاء گواہی کے مدنظر دو مسلمانوں کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں، لیکن عید کے بارے میں ائمہ اربعہ میں اتفاق ہے کہ دو مسلمانوں کی گواہی ضروری ہے کیونکہ عید میں لوگوں کا اپنا مفاد بھی ہوتا ہے، لہٰذا حقوق العباد کی طرح اس میں بھی دو گواہ ہونے چاہئیں جبکہ روزے میں لوگوں کا ذاتی مفاد نہیں، لہٰذا وہاں ایک مسلمان کی خبر کافی ہے کیونکہ یہ خبر ہے شہادت (گواہی) نہیں اورخبر کے لیے ایک معتبر شخص کافی ہے۔ (3) ”تو گواہی دیتا ہے؟“ گویا مسلمان ہونا ضروری ہے، نیز وہ قابل اعتبار بھی ہو، یعنی جھوٹ بولنے میں معروف نہ ہو اور فرائض شرع کا پابند ہو، دین کو مذاق نہ بناتا ہو۔ (4) یہ اور آئندہ تینوں روایات ضعیف ہیں لیکن ابوداؤد (حدیث: ۲۳۴۲) میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی صحیح حدیث موجود ہے، اس لیے حدیث میں بیان کردہ مسئلہ اور دیگر مستنبط مسائل درست ہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا (اور) کہنے لگا: میں نے چاند دیکھا ہے، تو آپ نے کہا: ”کیا تم شہادت دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں؟“ اس نے کہا: ہاں، تو نبی اکرم ﷺ نے لوگوں میں روزہ رکھنے کا اعلان کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Abbas said; "A Bedouin came to the Prophet and said: 'I have sighted the crescent.' He said: 'Do you bear witness that there is none worthy of worship except Allah, and that Muhammad is His slave and Messenger?' He said: 'Yes.' So the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) gave the call saying: 'Fast."'