باب: اس روایت میں محمد بن ابراہیم کے شاگردوں کا اختلاف(کہ بعض نے اسے حضرت ام سلمہ کی طرف منسوب کیا ہے اور بعض نے حضرت عائشہؓ کی طرف)
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: The Different Report from Muhammad Bin Ibrahim about that)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2177.
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہؓ سے رسول اللہﷺ کے (نفل) روزوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ کبھی (نفل) روزے رکھتے حتیٰ کہ ہم کہتے تھے: آپ ناغہ نہیں کریں گے۔ اور کبھی جھوڑے رہتے حتیٰ کہ ہم کہتے: آپ روزے نہیں رکھیں گے۔ آپ سارا شعبان یا اکثر شعبان روزے رکھتے تھے۔
تشریح:
(1) نفل روزوں کے لیے کوئی ضابطہ مقرر نہیں بلکہ یہ انسان کے نشاط پر موقوف ہے جب جی چاہے رکھے اور جتنے چاہے رکھے اور جب سستی محسوس کرے تو نہ رکھے اور جب تک چاہے ناغہ کرے۔ (مزید دیکھئے، حدیث: ۲۳۵۹) (2) شعبان میں زیادہ روزے رکھنے کی وجہ رمضان المبارک کی قربت ہو سکتی ہے گویا رمضان المبارک کا پڑوسی ہونے کے لحاظ سے شعبان کو بھی خصوصی فضیلت حاصل ہوگئی۔ انبیاء وصلحاء کا جوار بھی عظیم فضیلت کا سبب ہے، دنیا میں ہو، آخرت میں یا قبر میں۔ (3) ”سارا شعبان“ اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے: (حدیث: ۲۱۷۷)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2178
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2176
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2179
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہؓ سے رسول اللہﷺ کے (نفل) روزوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ کبھی (نفل) روزے رکھتے حتیٰ کہ ہم کہتے تھے: آپ ناغہ نہیں کریں گے۔ اور کبھی جھوڑے رہتے حتیٰ کہ ہم کہتے: آپ روزے نہیں رکھیں گے۔ آپ سارا شعبان یا اکثر شعبان روزے رکھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) نفل روزوں کے لیے کوئی ضابطہ مقرر نہیں بلکہ یہ انسان کے نشاط پر موقوف ہے جب جی چاہے رکھے اور جتنے چاہے رکھے اور جب سستی محسوس کرے تو نہ رکھے اور جب تک چاہے ناغہ کرے۔ (مزید دیکھئے، حدیث: ۲۳۵۹) (2) شعبان میں زیادہ روزے رکھنے کی وجہ رمضان المبارک کی قربت ہو سکتی ہے گویا رمضان المبارک کا پڑوسی ہونے کے لحاظ سے شعبان کو بھی خصوصی فضیلت حاصل ہوگئی۔ انبیاء وصلحاء کا جوار بھی عظیم فضیلت کا سبب ہے، دنیا میں ہو، آخرت میں یا قبر میں۔ (3) ”سارا شعبان“ اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے: (حدیث: ۲۱۷۷)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کے روزوں کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ (پے در پے اتنے) روزے رکھتے کہ ہم سمجھتے (اب) آپ روزہ رکھنا بند نہیں کریں گے، اور (پھر) اتنے دنوں تک بغیر روزے کے رہتے کہ ہم سمجھتے (اب) آپ روزے نہیں رکھیں گے، اور آپ (پورے) شعبان میں یا شعبان کے اکثر دنوں میں روزے رکھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah (RA) said: “One of us (women) would miss some fasts in Ramadan and she would not be able to make it up until Sha’ban began, and the Messenger of Allah (ﷺ) did not fast in any month as he fasted in a’ban; he used to fast all of it, except a little, he used to fast all of it.” (Sahih)