باب: روزے کی فضیلت اور حضرت علی بن طالب کی حدیث میں ابو اسحاق کے شاگردوں کا اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: The virtue of fasting, and the different reports from Abu Ishaq in the Hadith of 'Ali bin Abi Talib about that)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2211.
حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بلاشبہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزے دار کے لیے دو وقت خوشی کے ہیں: جب وہ روزہ کھولتا ہے اور جب اپنے رب کو ملے گا۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ اچھی ہے۔“
تشریح:
(1) ”روزہ میرے لیے ہے۔“ سب عبادات ہی اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہیں، مگر روزے کی تخصیص کی وجہ غالباً یہ ہے کہ روزے میں ریا کاری ممکن نہیں کیونکہ اس کی کوئی ظاہر علامت نہیں جسے کوئی دیکھ سکے روزے کے علاوہ باقی تمام عبادات میں لوگوں کی طرف سے تعریف ممکن ہے، مثلاً: نماز اور حج وغیرہ کیونکہ یہ عبادات لوگوں کو نظر آتی ہیں، جبکہ روزہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہوتا ہے۔ (2) ”میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔“ یعنی کوئی دوسرا اس کا بدلہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ اس کا ثواب جانتا ہی نہیں، صرف میں ہی جانتا ہوں، لہٰذا میں ہی اس کا بدلہ دوں گا جیسا کہ حدیث نبمبر (۲۲۱۷) میں ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک ہے۔ سوائے روزے کے کہ وہ بے حساب ہے، نیز روزے کا بدلہ جنت ہے اور جنت کوئی اور نہیں دے سکتا۔ (3) ”جب روزہ کھولتا ہے۔“ اس وقت خوشی اللہ تعالیٰ کے فریضے کی تکمیل کی وجہ سے ہوتی ہے یا طبعی خوشی مراد ہے جو ہر انسان کو کھانے سے حاصل ہو تی ہے۔ (4) ”جب اپنے رب کو ملے گا۔“ اس وقت خوشی ہوگی، اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور روزے کا ثواب دیکھ کر اور یہی حقیقی خوشی ہے۔ (5) ”روزے دار کے منہ کی بو۔“ جو معدہ خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں انسان خوشبو والے شخص کو اپنے قریب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی روزے دار کو اپنے قریب فرمائے گا اور اس سے محبت فرمائے گا گویا یہ بو جو روزے کی حالت میں منہ سے آتی ہے، قیامت کے دن کستوری کی خوشبو کا تمثیل اختیار کرے گی۔ ممکن ہے دنیا ہی میں روزے کی حالت کی بو اللہ تعالیٰ یا فرشتوں کو کستوری سے بڑھ کر خوشبو دار معلوم ہوتی ہو۔ ﴿إنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾(الأنفال: ۷۵) (6) اللہ کی صفت کلام کا اثبات ہوتا ہے، نیز پتا چلتا ہے کہ اللہ کا کلام صرف قرآن مجید ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے کلام فرماتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث، حدیث قدسی ہے۔ حدیث قدسی دراصل اللہ ہی کا کلام ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کی بطور عبادت تلاوت نہیں کی جاتی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2212
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2210
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2213
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
آئندہ دو احادیث کی اسانید دیکھنے سے اختلاف واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت ابواسحاق کے شاگرد نے اسے حضرت علی کی روایت قرار دیا ہے جبکہ دوسرے شاگرد شعبہ نے اسے حضرت عبداللہ بن مسعود کی طرف منسوب کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امام نسائی اسے حضرت علی کی روایت صحیح سمجھتے ہیں۔ واللہ اعلم
حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بلاشبہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزے دار کے لیے دو وقت خوشی کے ہیں: جب وہ روزہ کھولتا ہے اور جب اپنے رب کو ملے گا۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ اچھی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”روزہ میرے لیے ہے۔“ سب عبادات ہی اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہیں، مگر روزے کی تخصیص کی وجہ غالباً یہ ہے کہ روزے میں ریا کاری ممکن نہیں کیونکہ اس کی کوئی ظاہر علامت نہیں جسے کوئی دیکھ سکے روزے کے علاوہ باقی تمام عبادات میں لوگوں کی طرف سے تعریف ممکن ہے، مثلاً: نماز اور حج وغیرہ کیونکہ یہ عبادات لوگوں کو نظر آتی ہیں، جبکہ روزہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہوتا ہے۔ (2) ”میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔“ یعنی کوئی دوسرا اس کا بدلہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ اس کا ثواب جانتا ہی نہیں، صرف میں ہی جانتا ہوں، لہٰذا میں ہی اس کا بدلہ دوں گا جیسا کہ حدیث نبمبر (۲۲۱۷) میں ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک ہے۔ سوائے روزے کے کہ وہ بے حساب ہے، نیز روزے کا بدلہ جنت ہے اور جنت کوئی اور نہیں دے سکتا۔ (3) ”جب روزہ کھولتا ہے۔“ اس وقت خوشی اللہ تعالیٰ کے فریضے کی تکمیل کی وجہ سے ہوتی ہے یا طبعی خوشی مراد ہے جو ہر انسان کو کھانے سے حاصل ہو تی ہے۔ (4) ”جب اپنے رب کو ملے گا۔“ اس وقت خوشی ہوگی، اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور روزے کا ثواب دیکھ کر اور یہی حقیقی خوشی ہے۔ (5) ”روزے دار کے منہ کی بو۔“ جو معدہ خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں انسان خوشبو والے شخص کو اپنے قریب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی روزے دار کو اپنے قریب فرمائے گا اور اس سے محبت فرمائے گا گویا یہ بو جو روزے کی حالت میں منہ سے آتی ہے، قیامت کے دن کستوری کی خوشبو کا تمثیل اختیار کرے گی۔ ممکن ہے دنیا ہی میں روزے کی حالت کی بو اللہ تعالیٰ یا فرشتوں کو کستوری سے بڑھ کر خوشبو دار معلوم ہوتی ہو۔ ﴿إنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾(الأنفال: ۷۵) (6) اللہ کی صفت کلام کا اثبات ہوتا ہے، نیز پتا چلتا ہے کہ اللہ کا کلام صرف قرآن مجید ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے کلام فرماتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث، حدیث قدسی ہے۔ حدیث قدسی دراصل اللہ ہی کا کلام ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کی بطور عبادت تلاوت نہیں کی جاتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ کہتا ہے: روزہ میرے لیے ہے، اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ اور روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک جس وقت وہ روزہ کھولتا ہے، اور دوسری جس وقت وہ اپنے رب سے ملے گا، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘ Ali Ibn Abi Talib (RA) that the Messenger of Allah (ﷺ) a said: “Allah the Mighty and Sublime, says: ‘Fasting is for Me and I shall reward for it. The fasting person has two moments of joy: When he breaks his fast and when he meets his Lord.’ By the One in Whose hand is my soul, the smell that comes from the mouth of the fasting person is better before Allah than the fragrance of musk.”(Sahih).