کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
(
باب: پانی کی وہ مقدار جس پر آدمی غسل کے لیے اکتفا کر سکتا ہے
)
Sunan-nasai:
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
(Chapter: Mention Of How Much Water 1s Sufficient For A Man To Perform Ghusl )
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
226.
موسیٰ جہنی سے روایت ہے کہ حضرت مجاہد کے پاس ایک پیالہ لایا گیا۔ میرے اندازے کے مطابق وہ آٹھ رطل تھا۔ مجاہد کہنے لگے کہ مجھ سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا: بے شک رسول اللہ ﷺ اتنے پانی سے غسل فرما لیا کرتے تھے۔
تشریح:
(1) آٹھ رطل عراقی صاع کے برابر ہیں۔ حجازی صاع کے لحاظ سے یہ تقریباً ڈیڑھ صاع کے برابر ہیں۔ حجازی صاع وزن کے لحاظ سے تقریباً ڈھائی کلو ہوتا ہے، گویا پانی کی مقدار تقریباً چار کلو تھی۔ (2) اس حدیث میں غسل کے لیے پانی کی مقدار آٹھ رطل تقریباً ڈیڑھ صاع بیان ہوئی ہے جبکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے: ’’نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع (تقریباً اڑھائی کلو) پانی سے غسل اور ایک مد سے وضو کر لیا کرتے تھے۔‘‘ دیکھیے: (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: ۲۰۱، و صحیح مسلم، الحیض، حدیث: ۳۳۵) اور سنن ابوداود میں وضو کے لیے پانی کی مقدار ایک مد کے دو تہائی جتنا بیان ہوئی ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: ۹۴) ان تمام روایات کا مقصد غسل اور وضو کے لیے پانی کی مقدار کی حد بندی نہیں اور نہ ان روایات میں باہمی تعارض ہے بلکہ مختلف حالات میں ضرورت کے مطابق پانی کم اور زیادہ استعمال ہوسکتا ہے۔ ان روایات میں ترغیب دی گئی ہے کہ پانی کم از کم استعمال کرنا چاہیے، بے جا استعمال نہ ہو کہ وہ اسراف اور ضیاع کی حد کو پہنچ جائے اور اتنا کم بھی نہ ہو کہ اس سے غسل یا وضو کے بجائے مسح ہی سمجھا جائے۔ واللہ أعلم۔
موسیٰ جہنی سے روایت ہے کہ حضرت مجاہد کے پاس ایک پیالہ لایا گیا۔ میرے اندازے کے مطابق وہ آٹھ رطل تھا۔ مجاہد کہنے لگے کہ مجھ سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا: بے شک رسول اللہ ﷺ اتنے پانی سے غسل فرما لیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) آٹھ رطل عراقی صاع کے برابر ہیں۔ حجازی صاع کے لحاظ سے یہ تقریباً ڈیڑھ صاع کے برابر ہیں۔ حجازی صاع وزن کے لحاظ سے تقریباً ڈھائی کلو ہوتا ہے، گویا پانی کی مقدار تقریباً چار کلو تھی۔ (2) اس حدیث میں غسل کے لیے پانی کی مقدار آٹھ رطل تقریباً ڈیڑھ صاع بیان ہوئی ہے جبکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے: ’’نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع (تقریباً اڑھائی کلو) پانی سے غسل اور ایک مد سے وضو کر لیا کرتے تھے۔‘‘ دیکھیے: (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: ۲۰۱، و صحیح مسلم، الحیض، حدیث: ۳۳۵) اور سنن ابوداود میں وضو کے لیے پانی کی مقدار ایک مد کے دو تہائی جتنا بیان ہوئی ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: ۹۴) ان تمام روایات کا مقصد غسل اور وضو کے لیے پانی کی مقدار کی حد بندی نہیں اور نہ ان روایات میں باہمی تعارض ہے بلکہ مختلف حالات میں ضرورت کے مطابق پانی کم اور زیادہ استعمال ہوسکتا ہے۔ ان روایات میں ترغیب دی گئی ہے کہ پانی کم از کم استعمال کرنا چاہیے، بے جا استعمال نہ ہو کہ وہ اسراف اور ضیاع کی حد کو پہنچ جائے اور اتنا کم بھی نہ ہو کہ اس سے غسل یا وضو کے بجائے مسح ہی سمجھا جائے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
موسیٰ جہنی کہتے ہیں کہ مجاہد کے پاس ایک برتن لایا گیا، میں نے اس میں آٹھ رطل پانی کی سمائی کا اندازہ کیا، تو مجاہد نے کہا: مجھ سے ام المؤمنین عائشہ ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسی قدر پانی سے غسل فرماتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that MusaAl-Juhani said: “A vessel was brought to Mujahid, which I estimated to be eight Ratls, and he said: 'Aishah (RA) told me that the Messenger of Allah (ﷺ) used to perform Ghusl using such a vessel.” (Sahih)