باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان:{ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ }کی تفسیر
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Interpreting the saying of Allah, The Mighty And Sublime: "And as for those who can fast with difficulty,(e.g. an old man), they have (a choice either to fast or) to feed a Miskin (poor person) (for every day)")
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2316.
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری: ﴿وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ﴾ ”جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ فدیہ دیں ایک مسکین کا کھانا۔“ تو ہم میں سے جو شخص روزے نہ رکھنا چاہتا، وہ فدیہ دے دیتا حتیٰ کہ اس کے بعد والی آیت اتری اور اس نے اسے منسوخ کر دیا۔
تشریح:
(1) فرضیت روزہ کے ابتدائی دور میں روزہ فرض تو تھا مگر کوئی شخص بلا عذر روزہ چھوڑنا چاہتا تو اسے اجازت تھی کہ روزہ نہ رکھے مگر اسے فدیہ دینا پڑتا تھا، پھر بعد میں دوسری آیت اتری: ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾ ”تم میں سے جو شخص اس مہینے میں موجود ہو، وہ لازماً روزہ رکھے۔“ تو اس سے فدیہ والی رخصت ختم ہوگئی اور ہر تندرست اور گھر میں موجود شخص کے لیے روزہ رکھنا لازم ہوگیا، البتہ یہ رخصت اس شخص کے لیے باقی ہے جو انتہائی ضعیف ہونے کی وجہ سے روزہ نبھا نہیں سکتا اور اس کی قوت وصحت کی بھی کوئی امید نہیں۔ (2) قرآن میں نسخ ثابت ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ (3) فرضت روزہ کا تدریجی حکم امت مسلمہ کی آسانی کے لیے تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2317
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2315
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2318
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری: ﴿وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ﴾ ”جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ فدیہ دیں ایک مسکین کا کھانا۔“ تو ہم میں سے جو شخص روزے نہ رکھنا چاہتا، وہ فدیہ دے دیتا حتیٰ کہ اس کے بعد والی آیت اتری اور اس نے اسے منسوخ کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) فرضیت روزہ کے ابتدائی دور میں روزہ فرض تو تھا مگر کوئی شخص بلا عذر روزہ چھوڑنا چاہتا تو اسے اجازت تھی کہ روزہ نہ رکھے مگر اسے فدیہ دینا پڑتا تھا، پھر بعد میں دوسری آیت اتری: ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾ ”تم میں سے جو شخص اس مہینے میں موجود ہو، وہ لازماً روزہ رکھے۔“ تو اس سے فدیہ والی رخصت ختم ہوگئی اور ہر تندرست اور گھر میں موجود شخص کے لیے روزہ رکھنا لازم ہوگیا، البتہ یہ رخصت اس شخص کے لیے باقی ہے جو انتہائی ضعیف ہونے کی وجہ سے روزہ نبھا نہیں سکتا اور اس کی قوت وصحت کی بھی کوئی امید نہیں۔ (2) قرآن میں نسخ ثابت ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ (3) فرضت روزہ کا تدریجی حکم امت مسلمہ کی آسانی کے لیے تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ: «وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ» ”جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں (اور وہ روزہ نہ رکھنا چاہیں) تو ان کا فدیہ یہ ہے کہ کسی مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلائیں۔“ (البقرہ: ۱۸۴) نازل ہوئی تو ہم میں سے جو شخص چاہتا کہ وہ افطار کرے (کھائے پئے) اور فدیہ دیدے (تو وہ ایسا کر لیتا) یہاں کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی تو اس نے اسے منسوخ کر دیا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : بعد والی آیت سے مراد سورۃ البقرہ کی یہ آیت ہے «فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ» یعنی ”تم میں سے جو بھی آدمی رمضان کا مہینہ پائے وہ روزہ رکھے.“
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Salamah bin Al-Akwa’ said: “When this Verse was revealed - ‘And as for those who can fast with difficulty, (e.g. an old man), they have (a choice either to fast or) to feed a MiskIn (poor person) (for every day) - those among us who did not want to fast would pay the Fidyah, until the Verse after it was revealed and abrogated this.” (Sahih)