باب: رمضان میں دن کے وقت جب عورت حیض سے پاک ہو جائے یا مسافر گھر آ جائے تو کیا باقی دن کا روزہ رکھیں؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: If a Menstruating Woman becomes pure or a traveler Returns During Ramadan, Should they fast for the rest of that day?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2320.
حضرت محمد بن صیفی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے عاشوراء ؓ (دس محرم الحرام) کے دن فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی نے آج کھانا کھایا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: کچھ لوگوں نے روزہ رکھا ہے اور کچھ نے نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر باقی دن کچھ نہ کھانا، نیز مدینہ منورہ کے قرب وجوار بستیوں میں پیغام بھیج دو کہ وہ باقی دن کچھ نہ کھائیں پئیں۔“
تشریح:
(1) یوم عاشوراء سے متعلق مجموعی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دن کا روزہ فرض تھا کیونکہ رسول اللہﷺ سے مختلف احادیث میں اس کے منتعلق حکم منقول ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (فتح الباري: ۴/ ۲۴۷) یہ اعلان آپ نے دن چڑھے فرمایا، شاید فرضیت کا حکم اسی وقت آیا ہو۔ (2) ”باقی دن کچھ نہ کھانا“ خواہ پہلے کھانا کھا ہی چکا ہو۔ اس صورت میں روزہ صحیح ہوگا، اور شرعاً قابل اعتبار، نیز اس کی جگہ بعد میں روزہ رکھنا ضروری نہیں، یہی موقف حق ہے کیونکہ اس کی قضا ادا کرنے کا حکم نہیں، جس روایت میں قضا کا حکم ہے وہ سنداً ناقابل حجت اور ضعیف ہے۔ دیکھئے: (سنن أبي داؤد، حدیث: ۲۴۴۷) جیسے بھول کر کھانے پینے والے کا شرعاً مؤاخذہ نہیں اور نہ اس کا روزہ ہی فاسد ہوتا ہے، یہی توجیہ زیر بحث مسئلے میں ہو سکتی ہے۔ واللہ أعلم! امام نسائی رحمہ اللہ نے حائضہ اور مسافر کو بھی اسی پر قیاس فرمایا ہے کہ اگر دن کے دوران میں ان کا عذر ختم ہو جائے تو وہ باقی دن کچھ نہ کھائیں پئیں، خواہ پہلے کچھ کھایا پیا ہو یا نہ۔ لیکن اب رکنا لازمی ہے۔ (3) ”قرب وجوار بستیوں“ عربی میں لفظ ”عروض“ استعمال ہوا ہے، جس سے مراد مکہ، مدینہ اور یمن کا تمام علاقہ ہے، لیکن ظاہر ہے اس وقت یہ اعلان اتنے علاقے میں تو نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے مندرجہ بالا معنیٰ کیے گئے کیونکہ اس وقت یہی ممکن تھا۔ (4) طلوع فجر صادق سے قبل روزے کی نیت اس کے لیے ضروری ہے جسے علم ہو کہ صبح کو روزہ ہے۔ جسے پتا ہی دن کے وقت چلے کہ آج روزہ ہے، تو اگر اس نے طلوع فجر کے بعد اس وقت تک کچھ نہیں کھایا، وہ روزے کی نیت کر سکتا ہے اور اس کی دن کی نیت معتبر ہوگی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2321
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2319
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2322
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت محمد بن صیفی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے عاشوراء ؓ (دس محرم الحرام) کے دن فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی نے آج کھانا کھایا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: کچھ لوگوں نے روزہ رکھا ہے اور کچھ نے نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر باقی دن کچھ نہ کھانا، نیز مدینہ منورہ کے قرب وجوار بستیوں میں پیغام بھیج دو کہ وہ باقی دن کچھ نہ کھائیں پئیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یوم عاشوراء سے متعلق مجموعی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دن کا روزہ فرض تھا کیونکہ رسول اللہﷺ سے مختلف احادیث میں اس کے منتعلق حکم منقول ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (فتح الباري: ۴/ ۲۴۷) یہ اعلان آپ نے دن چڑھے فرمایا، شاید فرضیت کا حکم اسی وقت آیا ہو۔ (2) ”باقی دن کچھ نہ کھانا“ خواہ پہلے کھانا کھا ہی چکا ہو۔ اس صورت میں روزہ صحیح ہوگا، اور شرعاً قابل اعتبار، نیز اس کی جگہ بعد میں روزہ رکھنا ضروری نہیں، یہی موقف حق ہے کیونکہ اس کی قضا ادا کرنے کا حکم نہیں، جس روایت میں قضا کا حکم ہے وہ سنداً ناقابل حجت اور ضعیف ہے۔ دیکھئے: (سنن أبي داؤد، حدیث: ۲۴۴۷) جیسے بھول کر کھانے پینے والے کا شرعاً مؤاخذہ نہیں اور نہ اس کا روزہ ہی فاسد ہوتا ہے، یہی توجیہ زیر بحث مسئلے میں ہو سکتی ہے۔ واللہ أعلم! امام نسائی رحمہ اللہ نے حائضہ اور مسافر کو بھی اسی پر قیاس فرمایا ہے کہ اگر دن کے دوران میں ان کا عذر ختم ہو جائے تو وہ باقی دن کچھ نہ کھائیں پئیں، خواہ پہلے کچھ کھایا پیا ہو یا نہ۔ لیکن اب رکنا لازمی ہے۔ (3) ”قرب وجوار بستیوں“ عربی میں لفظ ”عروض“ استعمال ہوا ہے، جس سے مراد مکہ، مدینہ اور یمن کا تمام علاقہ ہے، لیکن ظاہر ہے اس وقت یہ اعلان اتنے علاقے میں تو نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے مندرجہ بالا معنیٰ کیے گئے کیونکہ اس وقت یہی ممکن تھا۔ (4) طلوع فجر صادق سے قبل روزے کی نیت اس کے لیے ضروری ہے جسے علم ہو کہ صبح کو روزہ ہے۔ جسے پتا ہی دن کے وقت چلے کہ آج روزہ ہے، تو اگر اس نے طلوع فجر کے بعد اس وقت تک کچھ نہیں کھایا، وہ روزے کی نیت کر سکتا ہے اور اس کی دن کی نیت معتبر ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن صیفی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کے دن فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی نے آج کے دن کھایا ہے؟“ لوگوں نے کہا: ہم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے روزہ رکھا ہے، اور کچھ لوگوں نے نہیں رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اپنا باقی دن (بغیر کھائے پیئے) پورا کرو، ۱؎ اہل عروض ۲؎ کو خبر کرا دو کہ وہ بھی اپنا باقی دن (بغیر کھائے پئے) پورا کریں۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اپنا باقی دن بغیر کھائے پیئے پورا کرو، اسی جملہ سے ترجمۃ الباب پر استدلال ہے، اس میں روزہ رکھنے والوں اور روزہ نہ رکھنے والوں دونوں کو اتمام کا حکم ہے۔ ۲؎ : عروض کا اطلاق مکہ، مدینہ اور اس کے اطراف پر ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Muhammad bin Saifi said: "The Messenger of Allah said on the day of Ashura: Is there anyone among you who has eaten today?' They said: Some of us are fasting and some of us are not.' He said: 'Do not eat for the rest of the day, and send word to the people of Al-Al-Arud telling them not to eat for the rest of the day.