باب: اس بارے میں حضرت حفصہ کی حدیث میں ناقلین کا اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Mentioning the Differences Narrated by those who Reported the Narration from Hafsah concerning that)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2343.
حضرت ابن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے: روزے نہ رکھے مگر وہ شخص جس نے طلوع فجر سے پہلے روزے کی نیت کر لی۔
تشریح:
(1) مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت کبھی حضرت حفصہؓ کا اپنا قول بتایا جاتا ہے، کبھی رسول اللہﷺ کا فرمان اور کبھی ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول، اس لیے اس حدیث کے بارے میں محدثین مختلف ہیں۔ مشہور ائمہ حدیث، مثلاً: امام بخاری، امام ابوداؤد، امام نسائی، امام ترمنذی اور امام احمد رحمہم اللہ اس روایت کو موقوفاً صحیح سمجھتے ہیں، یعنی یہ حضرت حفصہ یا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم کا اپنا قول ہے، رسول اللہﷺ سے مروی نہیں، جبکہ امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام دارقطنی، امام ابن حزم اور امام حاکم رحمہم اللہ نے اسے مرفوع بھی صحیح قرار دیا ہے، یعنی یہ رسول اللہﷺ کا فرمان بھی ہے، بالفرض اگر اسے مرفوعاً صحیح تسلیم نہ بھی کیا جائے تب بھی یہ حکماً مرفوع ہی بنتی ہے کیونکہ حضرت حفصہؓ کے اس فتوے کی بنیاد اپنی رائے یا قیاس نہیں، یقینا اس کی بنیاد رسول اللہﷺ کا قول ہی ہو سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۱/ ۲۴۷- ۲۴۹)واللہ أعلم۔ (2) نفلی روزے کی نیت دن کے وقت بھی کی جا سکتی ہے۔ (3) فرض روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے کر لینا ضروری ہے۔ گویا غروب آفتاب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک نیت کی جا سکتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2344
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2342
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2345
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
پہلی روایت میں عبداللہ بن ابی بکر اور حضرت سالم کے درمیان زہری کا واسطہ ذکر نہیں جبکہ باقی روایات میں حضرت زہری کا واسطہ ذکر ہے۔ اور یہی درست ہے کہ حضرت سالم سے بیان کرنے والے حضرت زہری ہیں، آگے ان کے شاگرد ہی ہیں۔ دوسرا اختلاف یہ ہے کہ پہلی پانچ روایات میں حضرت زہری کے استاد حضرت سالم بیان کیے گئے ہیں، جبکہ بعد والی روایات میں حضرت حمزہ بن عبداللہ۔ اس میں کوئی تناقض نہیں کیونکہ سالم اور حمزہ دونوں حضرت ابن عمر کے بیٹے ہیں۔ دونوں ان سے بیان کرتے ہیں، البتہ روایات 2341 اور2342میں حمزہ اور براہ راست حضرت حفصہؓسے بیان کرتے ہیں۔
حضرت ابن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے: روزے نہ رکھے مگر وہ شخص جس نے طلوع فجر سے پہلے روزے کی نیت کر لی۔
حدیث حاشیہ:
(1) مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت کبھی حضرت حفصہؓ کا اپنا قول بتایا جاتا ہے، کبھی رسول اللہﷺ کا فرمان اور کبھی ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول، اس لیے اس حدیث کے بارے میں محدثین مختلف ہیں۔ مشہور ائمہ حدیث، مثلاً: امام بخاری، امام ابوداؤد، امام نسائی، امام ترمنذی اور امام احمد رحمہم اللہ اس روایت کو موقوفاً صحیح سمجھتے ہیں، یعنی یہ حضرت حفصہ یا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم کا اپنا قول ہے، رسول اللہﷺ سے مروی نہیں، جبکہ امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام دارقطنی، امام ابن حزم اور امام حاکم رحمہم اللہ نے اسے مرفوع بھی صحیح قرار دیا ہے، یعنی یہ رسول اللہﷺ کا فرمان بھی ہے، بالفرض اگر اسے مرفوعاً صحیح تسلیم نہ بھی کیا جائے تب بھی یہ حکماً مرفوع ہی بنتی ہے کیونکہ حضرت حفصہؓ کے اس فتوے کی بنیاد اپنی رائے یا قیاس نہیں، یقینا اس کی بنیاد رسول اللہﷺ کا قول ہی ہو سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۱/ ۲۴۷- ۲۴۹)واللہ أعلم۔ (2) نفلی روزے کی نیت دن کے وقت بھی کی جا سکتی ہے۔ (3) فرض روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے کر لینا ضروری ہے۔ گویا غروب آفتاب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک نیت کی جا سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے تھے کہ روزہ صرف وہی رکھے جس نے فجر سے پہلے روزہ کی پختہ نیت کر لی ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn ‘Umar (RA) that he used to say: “None should fast except the one who intended to fast before dawn.” (Sahih)