کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
(
باب: مرد اور اس کی بیوی کا (بیک وقت)ایک برتن سے غسل کرنا
)
Sunan-nasai:
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
(Chapter: Mention Of A Man And One Of His Wives Performing Ghusl From A Single Vessel)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
237.
ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ سے پوچھا گیا: کیا عورت (بیوی) مرد کے ساتھ غسل کرسکتی ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں، جب وہ سمجھ دار ہو۔ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں اور اللہ کے رسول ﷺ ایک ٹب سے غسل کر لیا کرتے تھے۔ پہلے ہم اپنے ہاتھوں پر پانی بہا کر انھیں اچھی طرح صاف کر لیتے، پھر اپنے باقی جسم پر پانی بہاتے۔ اعرج (راوی نے کہا: عورت شرم گاہ کی طرف توجہ دے، نہ حماقت سے کام لے۔
تشریح:
حدیث کے راوی اعرج دراصل حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے فرمان: ’’سمجھ دار‘‘ کی تفسیر کر رہے ہیں کہ عورت غسل کے وقت مرد کی شرم گاہ کی طرف توجہ نہ دے اور پانی لیتے اور جسم پر ڈالتے وقت حماقت نہ کرے، یعنی چھینٹوں سے برتن کے پانی کو بچائے، وغیرہ۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذ ا قال النووي والعسقلاني والعراقي) .
إسناده: ثنا أحمد بن يونسر: ثنا زهير عن داود بن عبد الله عن حميد
الحميري.
وهذا سند صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير داود بن عبد الله
الأودي؛ وهو ثقة باتفاق النقاد.
________________________________________
وللحديث تتمة تأتي برقم (74) .
والحديث أخرجه النسائي أيضا (1/47 و 2/276) ، والحاكم (1/ 168) ،
والبيهقي (1/190) من طرق عن داود بن عبد الله الأودي عنه. وقال البيهقي:
" رواته ثقات؛ إلا أن حميداً لم يسم الصحابي الذي حدثه؛ فهو بمعنى
المرسل "!
وتعقبه ابن التركماني فأصاب، حيث قال:
" قد قدمنا أن هذا ليس بمرسل، بل هو متصل؛ لأنّ الصحابة كلهم عدول،
فلا تضرهم الجهالة ".
ولذلك قال النووي في "المجموع " (2/91) ، والعراقي في "التقريب " (2/40) ،
والحافظ في "بلوغ المرام " (1/22 من شرحه) :
" وإسناده صحيح ". وقال في "الفتح " (1/240) :
" رجاله ثقات، ولم أقف لمن أعله على حجة قوية، ودعوى البيهقي أنه في
معنى المرسل مردودة؛ لأنّ إبهام الصحابي لا يضر، وقد صرح التابعي بأنه لقيه.
ودعوى ابن حزم أن داود- راويه عن حميد بن عبد الرحمن- هو ابن يزيد الأودي،
وهو ضعيف: مردودة؛ فإنه ابن عبد الله الأودي، وهو ثقة، وقد صرح باسم أبيه أبو
داود وغيره ".
والحديث سكت عليه المنذري (رقم 26) .
وله شاهد بسند حسن عن عبد الله بن يزيد، خرّجته في "الصحيحة"
(2516) في التبوُل.
________________________________________
16- باب النهي عن البول في الجُحْر
[ ليس تحته حديث على شرط كتابنا هذا. (انظر "الضعيف
سنن أبي داود ( 28 ) - مختصرا
ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ سے پوچھا گیا: کیا عورت (بیوی) مرد کے ساتھ غسل کرسکتی ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں، جب وہ سمجھ دار ہو۔ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں اور اللہ کے رسول ﷺ ایک ٹب سے غسل کر لیا کرتے تھے۔ پہلے ہم اپنے ہاتھوں پر پانی بہا کر انھیں اچھی طرح صاف کر لیتے، پھر اپنے باقی جسم پر پانی بہاتے۔ اعرج (راوی نے کہا: عورت شرم گاہ کی طرف توجہ دے، نہ حماقت سے کام لے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث کے راوی اعرج دراصل حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے فرمان: ’’سمجھ دار‘‘ کی تفسیر کر رہے ہیں کہ عورت غسل کے وقت مرد کی شرم گاہ کی طرف توجہ نہ دے اور پانی لیتے اور جسم پر ڈالتے وقت حماقت نہ کرے، یعنی چھینٹوں سے برتن کے پانی کو بچائے، وغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کے مولیٰ ناعم نے بیان کیا کہ ام سلمہ ؓ سے دریافت کیا گیا کہ کیا بیوی شوہر کے ساتھ غسل کر سکتی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، جب سلیقہ مند ہو، میں نے اپنے آپ کو اور رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ ہم ایک لگن سے غسل کرتے تھے، ہم اپنے ہاتھوں پر پانی بہاتے یہاں تک کہ انہیں صاف کر لیتے، پھر اپنے بدن پر پانی بہاتے۔ اعرج ( «كيّسة» کی تفسیر کرتے ہوئے ) کہتے ہیں کہ سلیقہ مند وہ ہے جو نہ تو شوہر کے ساتھ غسل کرتے وقت شرمگاہ کا خیال ذہن میں لائے، اور نہ بیوقوفی (پھوہڑپن) کا مظاہرہ کرے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Abdur-Rahman bin Hurmuz Al-A’raj said: “Na’im the freed slave of Umm Salamah narrated to me that Umm Salamah was asked: ‘Can a woman perform Ghusl with a man?’ She said: ‘Yes, if she is well-mannered. I remember the Messenger of Allah (ﷺ) and I performing Ghusl from a single wash tub. We would pour water on our hands until they were clean then pour water over them.” Al-A’raj said: “Not mentioning the private area nor paying attention to it.”(Sahih)