باب: ہمیشہ روزہ رکھنے کی ممانعت اور اس بارے میں وارد حدیث (کے بیان ) میں مطرف بن عبد اللہ کے شاگردوں کا اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: The Prohibition of fasting for a lifetime, and mentioning the differences reported from Mutarrif Bin 'Abdullah In The Narrations About It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2379.
حضرت عمران ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کو بتلایا گیا: فلاں شخص کبھی بھی روزے سے ناغہ نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا: ”نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ چھوڑا۔“
تشریح:
ہمیشہ روزہ رکھنا فطرت انسانی کے خلاف ہے کیونکہ اس سے حقوق العباد کی ادائیگی میں خرابی پیدا ہو گی، جسمانی کمزور ہوگی، معاش خراب ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا ہمیشہ روزہ رکھنا درست نہیں، چاہے وہ عیدین اور ایام تشریق کے روزے چھوڑ بھی دے کیونکہ مذکورہ بالا خرابیاں اس صورت میں بھی بعینہٖ موجود ہیں۔ اگرچہ فقہی طور پر اس کے جواز کی یہ کہہ کر گنجائش نکالی گئی ہے کہ پانچ ناغے ہونے سے حقیقتاً ہمیشہ کا روزہ نہ رہا۔ مگر فقہی موشگافیوں کے بجائے مصالح اور مفاسد کا لحاظ رکھنا اصل ہے۔ شریعت کے احکام میں یہ چیز صاف نظر آتی ہے، مثلا: کتے کا جوٹھا پلید ہے، بلی کا پاک۔ محفوظ پانی قلیل نجاست سے پلید ہو جاتا ہے، مگر کھلا پانی نہیں، وغیرہ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2380
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2378
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2381
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
اختلاف یہ ہے کہ مطرف بن عبداللہ کن سے بیان کر رہے ہیں؟ حضرت عمران بن حصین سے یا اپنے والد عبداللہ بن شخیر سے؟
حضرت عمران ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کو بتلایا گیا: فلاں شخص کبھی بھی روزے سے ناغہ نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا: ”نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ چھوڑا۔“
حدیث حاشیہ:
ہمیشہ روزہ رکھنا فطرت انسانی کے خلاف ہے کیونکہ اس سے حقوق العباد کی ادائیگی میں خرابی پیدا ہو گی، جسمانی کمزور ہوگی، معاش خراب ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا ہمیشہ روزہ رکھنا درست نہیں، چاہے وہ عیدین اور ایام تشریق کے روزے چھوڑ بھی دے کیونکہ مذکورہ بالا خرابیاں اس صورت میں بھی بعینہٖ موجود ہیں۔ اگرچہ فقہی طور پر اس کے جواز کی یہ کہہ کر گنجائش نکالی گئی ہے کہ پانچ ناغے ہونے سے حقیقتاً ہمیشہ کا روزہ نہ رہا۔ مگر فقہی موشگافیوں کے بجائے مصالح اور مفاسد کا لحاظ رکھنا اصل ہے۔ شریعت کے احکام میں یہ چیز صاف نظر آتی ہے، مثلا: کتے کا جوٹھا پلید ہے، بلی کا پاک۔ محفوظ پانی قلیل نجاست سے پلید ہو جاتا ہے، مگر کھلا پانی نہیں، وغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! فلاں شخص کبھی دن کو افطار نہیں کرتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے نہ روزہ رکھا، نہ افطار کیا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ‘Imran said: “It was said: ‘Messenger of Allah (ﷺ), so-and-so never broke his fast, even for one day for the rest of his life.’ He said: ‘He has neither fasted nor broken his fast.” (Sahih)