باب: اس روایت میں غیلان بن جریر کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Mentioning the different reports from Ghaylan bin Jarir about it)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2383.
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے آپ کے روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ناراض ہوگئے۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمدﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہیں، پھر آپ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو بلا ناغہ روزے رکھتا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ چھوڑا۔“
تشریح:
(1) ”ناراض ہوگئے۔“ کیونکہ آپ نے اپنی نیکی کے اظہار کو مناسب نہ سمجھا، اس لیے ایسے سوال پر ناراض ہوئے۔ یا آپ نے خطرہ محسوس فرمایا کہ اگر میں نے بتا دیا تو سائل یا دوسرے لوگ میری اقتدا کرنے کی کوشش کریں گے اور مشقت میں پڑیں گے۔ یا اس لیے ناراض ہوئے کہ عبادت کے مسئلہ، خصوصاً روزے میں آپ کی مماثلت کرنا منع ہے، مثلاً: وصال (کئی دنوں کا روزہ) آپ کا خاصہ ہے، کسی اور شخص کو ایک دن سے زائد کا روزہ (وصال کی صورت میں) رکھنے کی اجازت نہیں۔ واللہ أعلم (2) ”راضی ہیں۔“ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کے آپ پر نازل کردہ دین پر سختی سے کار بند ہیں، لہٰذا ہماری غلطی معاف فرمائیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2384
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2382
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2385
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
غیلان بن جریر کے بعض شاگرد اس روایت کو حضرت ابوقتادہ کی روایت بناتے ہیں، اور بعض شاگرد حضرت عمر کی، یعنی حضرت ابوقتادہ یہ روایت حضرت عمر سے بیان فرماتے ہیں۔
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے آپ کے روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ناراض ہوگئے۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمدﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہیں، پھر آپ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو بلا ناغہ روزے رکھتا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ چھوڑا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”ناراض ہوگئے۔“ کیونکہ آپ نے اپنی نیکی کے اظہار کو مناسب نہ سمجھا، اس لیے ایسے سوال پر ناراض ہوئے۔ یا آپ نے خطرہ محسوس فرمایا کہ اگر میں نے بتا دیا تو سائل یا دوسرے لوگ میری اقتدا کرنے کی کوشش کریں گے اور مشقت میں پڑیں گے۔ یا اس لیے ناراض ہوئے کہ عبادت کے مسئلہ، خصوصاً روزے میں آپ کی مماثلت کرنا منع ہے، مثلاً: وصال (کئی دنوں کا روزہ) آپ کا خاصہ ہے، کسی اور شخص کو ایک دن سے زائد کا روزہ (وصال کی صورت میں) رکھنے کی اجازت نہیں۔ واللہ أعلم (2) ”راضی ہیں۔“ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کے آپ پر نازل کردہ دین پر سختی سے کار بند ہیں، لہٰذا ہماری غلطی معاف فرمائیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے آپ کے روزوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ ناراض ہو گئے، عمر ؓ نے کہا: ہم اللہ کے رب (حقیقی معبود) ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر، راضی ہیں، نیز آپ سے ہمیشہ روزہ رکھنے والے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: ”اس نے نہ روزہ رکھا، نہ ہی افطار کیا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Qatadah that the Messenger of Allah (ﷺ) was asked about his fasting and he got angry. ‘Umar said: “We are content with Allah as our Lord, Islam as our religion and Muhammad as our Prophet (ﷺ) .” And he was asked about someone who fasted for the rest of his life and said: “He neither fasted nor broke his fast.” (Sahih)