Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Punishment Or One Who Withholds Zakah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2444.
حضرت بہز بن حکیم کے دادا (حضرت معاویہ بن حیدہ قشیرہ ؓ) سے روایت ہے، انھوں نے کہا، میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا: ”صحرا میں چرنے والے اونٹوں میں سے ہر چالیس اونٹوں میں ایک بنت لبون (دو سالہ اونٹنی) ہے۔ (دوران وصولی) اونٹوں کے حساب ومقدار سے انھیں الگ نہ کیا جائے گا۔ جو شخص (خوشی سے ثواب کی خاطر زکاۃ دے گا، اس کو اس کا ثواب ملے گا اور جو دینے سے انکار کرے گا ہم زکاۃ بھی لیں گے اور (اس کے ساتھ ساتھ) اس کے نصف اونٹ بھی لیں گے۔ (کیونکہ) یہ زکاۃ ہمارے رب کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔ حضرت محمد ﷺ کے خاندان کے لیے کچھ بھی زکاۃ لینا (اپنی ذات کے لیے) جائز نہیں۔
تشریح:
(1) ”چرنے والے۔“ ان جانوروں میں زکاۃ فرض ہے جو سارا سال یا سال کا اکثر حصہ جنگل وغیرہ میں چر کر گزارتے ہوں، ان کو خود چارا نہ ڈالنا پڑے الا شاذ ونادر۔ (2) ”ہر چالیس اونٹوں میں۔“ یعنی ۱۲۰ اونٹوں کے بعد کیونکہ ۱۲۰ تک تو اونٹوں کی مخصوص زکاۃ ہے جس کا بیان آگے آرہا ہے۔ (3) ”بنت لبون“ اس سے مراد وہ اونٹنی ہے جس کی عمر دو سال ہو چکی ہو اور وہ تیسرے میں شروع ہو۔ (4) ”انھیں الگ نہ کیا جائے گا۔“ یعنی دو شریک زکاۃ کے ڈر سے اپنے اپنے اونٹ الگ نہیں کریں گے، مثلاً: ایک کے تین اور دوسرے کے دو اونٹ ہوں تو اس طرح ایک بکری زکاۃ واجب ہوتی ہے۔ جدا جدا کر لیے جائیں تو کچھ بھی واجب نہیں ہوتا۔ یا کچھ اونٹ کمزور یا عمر کے لحاظ سے چھوٹے ہوں تو وہ گنتی میں پورے ہی شمار ہوں گے، البتہ زکاۃ میں معین عمر والا اور درمیانہ (موٹاپے کے لحاظ سے) جانور لیا جائے گا۔ (5) ”نصف اونٹ بھی لیں گے۔“ یہ اقدام بطور سزا ہے۔ اسلامی حکومت کا اہل کار زبردستی کارندوں کے ذریعے سے زکاۃ کے ساتھ ساتھ جبراً، جس مال میں زکاۃ واجب ہوئی ہو، وہ آدھا مال بھی لے سکتا ہے اور وہ بیت المال میں جمع ہوگا۔ حدیث کی روشنی میں یہی موقف راجح ہے۔ لیکن جمہور علمائے کرام مالی سزا کو غیر مشروع قرار دیتے ہیں، ان کے بقول صرف زکاۃ ہی وصول کی جائے گی، مذکورہ حدیث کو انھوں نے وقتی سزا قرار دیا ہے یا وہ اس حکم کے نسخ کے قائل ہیں لیکن یہ دونوں باتیں ہی محل نظر ہیں جبکہ مذکورہ حدیث مذکورہ سزا کی بین دلیل ہے۔ (6) ”جائز نہیں۔“ تاکہ کسی کے ذہن میں یہ خیال تک نہ آئے کہ نبوت کا دعویٰ مال اکٹھا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وإنما هو حسن للخلاف المعروف في بهز بن حكيم .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2445
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2443
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2446
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت بہز بن حکیم کے دادا (حضرت معاویہ بن حیدہ قشیرہ ؓ) سے روایت ہے، انھوں نے کہا، میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا: ”صحرا میں چرنے والے اونٹوں میں سے ہر چالیس اونٹوں میں ایک بنت لبون (دو سالہ اونٹنی) ہے۔ (دوران وصولی) اونٹوں کے حساب ومقدار سے انھیں الگ نہ کیا جائے گا۔ جو شخص (خوشی سے ثواب کی خاطر زکاۃ دے گا، اس کو اس کا ثواب ملے گا اور جو دینے سے انکار کرے گا ہم زکاۃ بھی لیں گے اور (اس کے ساتھ ساتھ) اس کے نصف اونٹ بھی لیں گے۔ (کیونکہ) یہ زکاۃ ہمارے رب کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔ حضرت محمد ﷺ کے خاندان کے لیے کچھ بھی زکاۃ لینا (اپنی ذات کے لیے) جائز نہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”چرنے والے۔“ ان جانوروں میں زکاۃ فرض ہے جو سارا سال یا سال کا اکثر حصہ جنگل وغیرہ میں چر کر گزارتے ہوں، ان کو خود چارا نہ ڈالنا پڑے الا شاذ ونادر۔ (2) ”ہر چالیس اونٹوں میں۔“ یعنی ۱۲۰ اونٹوں کے بعد کیونکہ ۱۲۰ تک تو اونٹوں کی مخصوص زکاۃ ہے جس کا بیان آگے آرہا ہے۔ (3) ”بنت لبون“ اس سے مراد وہ اونٹنی ہے جس کی عمر دو سال ہو چکی ہو اور وہ تیسرے میں شروع ہو۔ (4) ”انھیں الگ نہ کیا جائے گا۔“ یعنی دو شریک زکاۃ کے ڈر سے اپنے اپنے اونٹ الگ نہیں کریں گے، مثلاً: ایک کے تین اور دوسرے کے دو اونٹ ہوں تو اس طرح ایک بکری زکاۃ واجب ہوتی ہے۔ جدا جدا کر لیے جائیں تو کچھ بھی واجب نہیں ہوتا۔ یا کچھ اونٹ کمزور یا عمر کے لحاظ سے چھوٹے ہوں تو وہ گنتی میں پورے ہی شمار ہوں گے، البتہ زکاۃ میں معین عمر والا اور درمیانہ (موٹاپے کے لحاظ سے) جانور لیا جائے گا۔ (5) ”نصف اونٹ بھی لیں گے۔“ یہ اقدام بطور سزا ہے۔ اسلامی حکومت کا اہل کار زبردستی کارندوں کے ذریعے سے زکاۃ کے ساتھ ساتھ جبراً، جس مال میں زکاۃ واجب ہوئی ہو، وہ آدھا مال بھی لے سکتا ہے اور وہ بیت المال میں جمع ہوگا۔ حدیث کی روشنی میں یہی موقف راجح ہے۔ لیکن جمہور علمائے کرام مالی سزا کو غیر مشروع قرار دیتے ہیں، ان کے بقول صرف زکاۃ ہی وصول کی جائے گی، مذکورہ حدیث کو انھوں نے وقتی سزا قرار دیا ہے یا وہ اس حکم کے نسخ کے قائل ہیں لیکن یہ دونوں باتیں ہی محل نظر ہیں جبکہ مذکورہ حدیث مذکورہ سزا کی بین دلیل ہے۔ (6) ”جائز نہیں۔“ تاکہ کسی کے ذہن میں یہ خیال تک نہ آئے کہ نبوت کا دعویٰ مال اکٹھا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: ”چرائے جانے والے ہر چالیس اونٹ میں ایک بنت لبون۱؎ ہے، اونٹوں کو (زکاۃ سے بچنے کے لیے) ان کے حساب (ریوڑ) سے جدا نہ کیا جائے۔ جو شخص ثواب کی نیت سے زکاۃ دے گا تو اسے اس کا ثواب ملے گا، اور جو شخص زکاۃ دینے سے انکار کرے گا تو ہم زکاۃ بھی لیں گے اور بطور سزا اس کے آدھے اونٹ بھی لے لیں گے، یہ ہمارے رب کی سزاؤں میں سے ایک سزا ہے۔ اس میں سے محمد ﷺ کے خاندان کے لیے کوئی چیز جائز نہیں ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اونٹ کا وہ بچہ جو اپنی عمر کے دو سال پورے کر چکا ہو، اور تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Bahz bin Hakim said: “My father told, me that my grandfather said: ‘I heard the Prophet (ﷺ) say: With regard to grazing camels, for every forty a Bint Laban (a two- year old female camel). No differentiation is to be made between camels when calculating them. Whoever gives it seeking reward, he will be rewarded for it. Whoever refuses, we will take it, and half of his camels, as one of the rights of our Lord. And it is not permissible for the family of Muhammad to have any of them.” (Hasan)