باب: جب اونٹ گھر والوں کے دودھ اور سواری کے لیے ہوں تو ان پر زکاۃ نہیں
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Waiving Zakah On Camels If They Are Used To Carry People And Goods)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2449.
حضرت بہز بن حکیم کے دادا نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”باہر چرنے والے اونٹوں کی زکاۃ ہر چالیس اونٹوں میں ایک بنت لبون (دو برس کی اونٹنی) ہے۔ اونٹوں کو ان کے حساب ومقدار سے ادھر ادھر نہ کیا جائے۔ جو آدمی ثواب حاصل کرنے کے لیے زکاۃ دے گا، اسے اس کا ثواب ملے گا اور جو نہ دے گا، ہم اس سے زکاۃ تو (بہر صورت) وصول کریں گے اور اس کے نصف اونٹ بھی ضبط کر لیں گے۔ زکاۃ ہمارے رب کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے اور محمدﷺ کے خاندان کے لیے ذرہ بھر زکاۃ بھی جائز نہیں۔“
تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے باب والا مسئلہ ”چرنے والے اونٹوں۔“ سے استنباط کیا ہے کیونکہ جو اونٹ گھریلو ضروریات کے لیے ہوتے ہیں، انھیں گھر میں رکھا جاتا ہے اور انھیں چارہ ڈالا جاتا ہے۔ اور ان میں واقعتاً زکاۃ نہیں۔ اونٹوں کے علاوہ بھی جو چیز انسان کی ذاتی ضروریات کے لیے ہو، اس میں زکاۃ نہیں، خواہ وہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو؟ (2) ”ادھر ادھر نہ کیا جائے۔“ اس کا دوسرا مفہوم بھی ہو سکتا ہے جو حدیث: ۲۴۴۹ کے فائدہ: ۱۰ میں بیان ہوا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (حدیث: ۲۴۴۶)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2450
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2448
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2451
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت بہز بن حکیم کے دادا نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”باہر چرنے والے اونٹوں کی زکاۃ ہر چالیس اونٹوں میں ایک بنت لبون (دو برس کی اونٹنی) ہے۔ اونٹوں کو ان کے حساب ومقدار سے ادھر ادھر نہ کیا جائے۔ جو آدمی ثواب حاصل کرنے کے لیے زکاۃ دے گا، اسے اس کا ثواب ملے گا اور جو نہ دے گا، ہم اس سے زکاۃ تو (بہر صورت) وصول کریں گے اور اس کے نصف اونٹ بھی ضبط کر لیں گے۔ زکاۃ ہمارے رب کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے اور محمدﷺ کے خاندان کے لیے ذرہ بھر زکاۃ بھی جائز نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے باب والا مسئلہ ”چرنے والے اونٹوں۔“ سے استنباط کیا ہے کیونکہ جو اونٹ گھریلو ضروریات کے لیے ہوتے ہیں، انھیں گھر میں رکھا جاتا ہے اور انھیں چارہ ڈالا جاتا ہے۔ اور ان میں واقعتاً زکاۃ نہیں۔ اونٹوں کے علاوہ بھی جو چیز انسان کی ذاتی ضروریات کے لیے ہو، اس میں زکاۃ نہیں، خواہ وہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو؟ (2) ”ادھر ادھر نہ کیا جائے۔“ اس کا دوسرا مفہوم بھی ہو سکتا ہے جو حدیث: ۲۴۴۹ کے فائدہ: ۱۰ میں بیان ہوا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (حدیث: ۲۴۴۶)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ہر چرنے والے چالیس اونٹوں میں دو برس کی اونٹنی ہے۔ اونٹ اپنے حساب (ریوڑ) سے جدا نہ کئے جائیں، جو ثواب کی امید رکھ کر انہیں دے گا تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور جو دینے سے انکار کرے گا تو ہم اس سے اسے لے کر رہیں گے، مزید اس کے آدھے اونٹ اور لے لیں گے، یہ ہمارے رب کے تاکیدی حکموں میں سے ایک حکم ہے، محمد کے آل کے لیے اس میں سے کوئی چیز حلال نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Bahz bin Hakim narrated from his father that his grandfather said: “I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘With regard to grazing camels, for every forty a Bint Laban. No differentiation is to be made between camels when calculating them. Whoever gives it seeking reward will be rewarded for it. Whoever refuses, we will take it and half of his camels, as one of the rights of our Lord. And it is not permissible for the family of Muhammad (ﷺ) to have any of them.” (Hasan)