Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Zahah On Cattle)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2453.
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے جب مجھے یمن بھیجا تو مجھے حکم دیا کہ میں گایوں سے زکاۃ نہ لوں حتیٰ کہ وہ تیس ہو جائیں جب تیس ہو جائیں تو چالیس تک ان میں سے جذعۃ (دوسرے سال میں داخل) نوجوان بچھڑا یا بچھڑی زکاۃ ہوگی۔ اور جب وہ چالیس ہوجائیں تو ان میں دو سالہ (دو دانتا) گائے (مذکر یا مؤنث) زکاۃ ہوگی۔
تشریح:
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ چاروں احادیث کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے حسن اور بعض نے صحیح قرار دیا ہے اور انھوں نے اس کے شواہد بھی بیان کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مذکو رہ روایات کی اسنادی بحث اور ان میں مذکورہ مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۲/ ۱۰۸-۱۱۷، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: ۷/ ۲۱-۲۳، و ۳۶/ ۳۳۹-۲۳ وإرواء الغلیل: ۳/ ۲۶۸-۲۷۱، رقم: ۷۹۵)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2454
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2452
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2455
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے جب مجھے یمن بھیجا تو مجھے حکم دیا کہ میں گایوں سے زکاۃ نہ لوں حتیٰ کہ وہ تیس ہو جائیں جب تیس ہو جائیں تو چالیس تک ان میں سے جذعۃ (دوسرے سال میں داخل) نوجوان بچھڑا یا بچھڑی زکاۃ ہوگی۔ اور جب وہ چالیس ہوجائیں تو ان میں دو سالہ (دو دانتا) گائے (مذکر یا مؤنث) زکاۃ ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ چاروں احادیث کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے حسن اور بعض نے صحیح قرار دیا ہے اور انھوں نے اس کے شواہد بھی بیان کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مذکو رہ روایات کی اسنادی بحث اور ان میں مذکورہ مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۲/ ۱۰۸-۱۱۷، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: ۷/ ۲۱-۲۳، و ۳۶/ ۳۳۹-۲۳ وإرواء الغلیل: ۳/ ۲۶۸-۲۷۱، رقم: ۷۹۵)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جس وقت مجھے یمن بھیجا تو حکم دیا کہ میں گائے، بیل سے جب تک وہ تیس کی تعداد کو نہ پہنچ جائیں کچھ نہ لوں، اور جب تیس ہو جائیں تو ان میں گائے کا ایک سال کا بچہ چاہے نر ہو یا مادہ یہاں تک کہ وہ چالیس کو پہنچ جائیں، اور جب چالیس ہو جائیں تو ان میں دو سال کی ایک بچھیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Mu'adh bin Jabal said: “When he sent me to Yemen, the Messenger of Allah (ﷺ) commanded me not to take any cattle until the number had reached thirty. If the number reached thirty, then a Jadh’ah calf in its second year, either male or female, was due on them, until the number reached forty. If the number reached forty, then a Musinnah was due on them.” (Da’if)